۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 162

بڑھ گئے سائے

ایک ملک دنیا میں ایسا بھی ہے کہ جس کے حصول کے لئے لاکھوں افراد جان سے گئے، لاکھوں لوگوں نے ایک مہذب اور مضبوط معاشرتی نظام کو ترک کرکے ہجرت کی اور اس ماحول میں پیوست ہونے کی جدوجہد کی جو ان کی قدروں اور اخلاقی اقدار سے قطعی مختلف تھا جہاں ایک قبائلی، جاگیردارانہ اور آقاﺅں کا تسلط تھا گو مذہبی اعتبار سے وہ ایک ”قوم“ کہے جاتے تھے مگر ایک طریقے سے وہ ہندوﺅں کے باجگزار تھے جو پڑھے لکھے اور مالی اعتبار سے انتہائی مضبوط تھے مگر مسلمان زمیندار ان کے مقروض رہتے تھے جب کہ مزارع مسلمان تھے جو انہیں کام کر دیتے تھے مگر وہ ان کے نزدیک ان کے غلام تھے ان کی کوئی تہذیبی حیثیت نہیں تھی وہ نہ صرف مالی طور پر کمزور اور ان کے رحم و کرم پر زندہ تھے بلکہ ان کی نسلوں کو بھی ترقی کی کوئی امید تھی، یہ محروم اور پسا ہوا طقبہ عددی اعتبار سے اکثریت میں تھا مگر معاشرتی اعتبار سے یہ کسی گنتی میں شمار نہیں تھا ان کی اولادوں کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں تھی اور اگر کوئی اس قسم کی ”جسارت“ کرنے کی کوشش کرتا تو آقا اسے ایک گدھا گاڑی عطا کرکے اس کے خاندان پر احسان کرتا کہ لڑکا کماﺅ پوت ہو گیا بلکہ سندھ میں حالات اس سے بدتر تھے جہاں لڑکیوں میں گھروں میں لونڈیوں کی حیثیت سے رکھا جاتا اور گروی رکھی ہوتی تھیں۔ بڑے بڑے زمیندار اور وڈیرے ان ہندوﺅں کے مقروض ہوتے جو بڑے ”کھلے دل“ سے انہیں قرضے دیتے اور بیاض کی رقم پہلے ہی کاٹ لیتے۔ یہ وڈیرے جو بغیر پڑھے لکھے ہوتے اور انہیں معلوم نہ ہوتا کہ وہ جس تحریر پر انگوٹھا لگا رہے ہیں اس میں کیا لکھا ہے۔
جب انگریزوں کے خلاف تحریک شروع ہوئی تو ان زمینداروں، جاگیرداروں اور وڈیروں نے حب الوطنی یا قومی اور مذہبی جذبے کے تحت اس تحریک کا ساتھ نہیں دیا بلکہ وہ دیکھ رہے تھے کہ ”بھائی“ (یہ ہندوﺅں کو بھائی کہتے تھے اور ہجرت کرکے اور آگ و خون کے طوفان سے گزر کر انہیں آزاد کرانے والوں کو ”پناہگیر“ اور ”ماکڑ“ جیسے ناموں سے پکارتے تھے) جب یہاں سے چلے جائیں گے تو ان کے قرضے ختم ہو جائیں گے، لہذا تقسیم کے بعد جب آئینی طور پر متروکہ املاک ان افراد کو ملنی تھیں جو ترک وطن کرکے اور اپنی زمینیں اور جائیدادیں ہندوستان میں چھوڑ کر آئے تھے لیکن یہاں ہندوﺅں کے زیردست اور مقروض وڈیروں نے آنے والوں کو ملنے والی زرعی زمینوں کو پہلے تو چھوڑنے سے انکار کیا جن پر وہ قابض ہو چکے تھے اور کسی نے قانونی طور پر زمینوں کو حاصل بھی کرلیا تو ان کے خلاف ایسے حالات پیدا کئے کہ وہ اپنی زمینیں اونے پونے بیچنے پر مجبور ہو گئے۔ سندھ کی حد تک یہ حالات درست نہ ہو سکے کیونکہ جو حکمران انہیں درست کرتے وہ بھی اس بہتی گنگا میں غوطے لگا رہے تھے انہوں نے شروع دن سے ہی ہجرت کرنے والوں کو قبول نہیں کیا کیونکہ یہ پڑھے لکھے، قانون و قواعد کے پابند اور انتظامی امور میں ماہر تھے جب کہ صوبے میں مسلمان اہلکار نہ ہونے کے برابر تھے اور چوتھی وہ آنے والوں کو اپنا حریف سمجھتے تھے کیونکہ ان کی علمیت کے سامنے ان کی لاعلمی کی پول کھل رہی تھی چنانچہ شروع دن سے ہی معدانہ رویہ اختیار کیا گیا، ادھر جن افراد نے ہجرت کی تھی انہوں نے اپنی محنت اور قابلیت سے زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کے مراحل طے کئے اور اپنے زور بازو سے تجارت اور تکینکی شعبوں میں مہارت کے ذریعے خود کو اپنے پیروں پر کھڑا کرلیا۔ اب ان تنگ نظر سیاستدانوں نے ایک نیا شوشہ چھوڑا جس کی ابتداءآج ”جمہوریت کے چیمپئن“ کہلائے جانے والے نام نہاد لیڈر نے لسانی مسئلہ پیدا کیا اور قائد اعظم کے اس حکم کو نظر انداز کردیا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو اور صرف اردو ہو گی، بھٹو نے سندھ میں اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئے سندھ اسمبلی سے سندھی کو قومی اور انتظامی زبان کی قرارداد منظور کراکر سندھی اور مہاجروں کو ایک دوسرے کے سامنے کھڑا کردیا جس میں بھٹو کے کزن ممتاز بھٹو جسے ایک ہندو دیوتا کا خطاب ”ڈھ سر“ دیا گیا یعنی دس سروں والا۔ اس نے برسر عام پناہ گیروں کو للکارہ کہ اگر اردو اردو کی رٹ لگائی تو زبان کاٹ لیں گے جس کے بعد روزنامہ ”جنگ“ میں انہیں امرہوی کا ”اردو کا جنازہ ہے بڑی دھوم سے نکلے“ والا شعر ایک ایسا شعلہ بن گیا جس نے پورے سندھ میں لسانی فسادات کی ابتداءکرائی اور اندرون سندھ سے لوگوں نے کراچی کی طرف مراجعت کی یعنی ایک اور ہجرت اس کے بعد سے بھٹو نے اپنے دور حکومت میں سندھی اور غیر سندھی کی تفریق کو وسیع سے وسیع تر کر دیا۔
یہ قائد اعظم کو ”کادو حجام“ اور اردو بولنے والوں کو ”پان کھاﺅ“ کہتا تھا اور اس کو اس بات کی فکر نہیں ہوتی تھی کہ وہ سندھیوں کا وزیر اعظم نہیں بلکہ سندھ کی ہر زبان بولنے والوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس کے دور میں سندھ میں شہری اور دیہی آبادی کے لئے کوٹہ سسٹم کا قاتلانہ قانون منظور ہوا جو دس سال کے لئے تھا مگر آج 60، 70 سال کے بعد بھی یہ کالا قانون اردو بولنے والوں کا معاشی اور تعلیمی قتل عام کررہا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں