سیاسی رسم 554

جب زیادہ بارش ہوتی ہے تو زیادہ پانی آتا ہے

گزشتہ روز کراچی میں ہونی والی بارش نے صاف صاف کراچی میں حکومت کرنے والوں کی کارکردگی کیا ہے اور ان کے لیے کراچی کے مسائل کیا ہیں ظاہر کردیا ہے۔۔ جو کے ایک انتہا افسوس کے عمل کو ظاہر کرتی ہے۔کراچی پاکستان کا وہ شہر ہے جہاں روزگار کے لیے مختلف شہروں سے لوگ آتے ہیں۔۔ اس شہر کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔جو پاکستان کو معیشت کے لحاظ سے70 فیصد فالودہ پہنچاتا ہے۔۔اس شہر میں پیش آنے والے اہم مسائل جو کے ایک سیاست کا شکار ہیں۔جب ہی تو کراچی پر حکومت کرنے والے حکمران اتنے سالوں میں بھی کراچی کے مسائل کو حل کرنہ سکے۔۔۔ اگر سیاست سے ہٹ کر کراچی کو اپنا شہر تسلیم کیا جائے تو ان حکمران کے لیے کراچی کے مسائل حل کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہیں۔ 26 جولائی کو ہونے والی موسلا دھا بارش کچھ ہی روز میں تھم کئی مگر کراچی کے حکمران کی بڑی بڑی باتوں کو جھوٹا ثابت کر گئی اور بتاگئی کے کراچی کے شہری ان کی نظر میں استعمال ہونے والے صرف ایک ووٹ بینک کی طرح ہیں۔۔ ان کو کوئی فرق ہی نہیں پڑتا ان اہم تر مسائل کے شکار سے۔۔ زیادہ گندگی ہونے سے ،بارش کا پانی روڈ پر جمع ہونے سے ، اس کے بعد خطرناک بیماری ہونے سے، کیونکہ کراچی شہر کا ہر فرد ان حکمران کے لیے سب ایک ٹشوپییر ہے۔
26 جولائی کو ہونے والی بارش اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اربن فلڈنگ کی صورتحال اور عوامی جانوں املاک کو پنچنے والے نقصانات کی ویڈیو اب بھی مقامی میڈیا اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر شیئر کی جارہی ہیں۔۔اگر پاکستان کے محکمہ موسمیات کے آرئیوز پر نظر دوڑائی جاﺅ تو جولائی کے پورے مہینے میں ہونے والی سب سے زیادہ بارش سنہ 1967 میں ریکارڈ ہوئی تھی۔۔ جس کی مقدار 429.3 ملی میٹر تھی اتنی بارش کے بعد صورتحال اتنی خراب نہیں تھی جو آج کے وقت ہے پیش آرہی ہے۔۔
کراچی میں بارش کی سالانہ اوسط174.6ملی میٹر کے لگ بھگ ہے۔۔ کراچی میں اربن فلڈنگ کی صورتحال پیدا کرنے والی 26 جولائی کی بارش کی مقدار شہر کے مختلف حصوں میں مختلف تھی۔ محکمہ موسمیات کی جانب سے فراہم کردہ اعداد دوشمار کے مطابق سب سے زیادہ 86 ملی میٹر بارش گلشن حدید سے منسلک علاقوں میں ہوئی تھی۔۔ یونیورسٹی روڈ پر 81 ملی میٹر سرجانی ٹاﺅن میں 73 ملی میٹر جناح ٹرمینل کے علاقوں میں 58 ملی میٹر کیماڑی میں 51 ملی میٹر نارتھ کراچی میں 62 ملی میٹر صدر میں 51 ملی میٹر جبکہ ناظم آباد میں 28 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی جب کہ 27 جولائی کو ناظم آباد میں 34 ملی میٹر گلستان جوہرس 10 ملی میٹر نارتھ کراچی میں آٹھ ملی میٹر اور پہلوان گوٹھ میں دوملی میٹر بارش یکارڈ کی گئی۔
صوبہ سندھ میں حکومت کرنے والے خکمران کے مطابق کراچی میں بارش کی سالانہ اوسط 174.6 ملی میٹر ہے۔۔ جبکہ شہر میں گزشتہ 40 گھنٹوں میں لگ بھگ دو دن کے دوران مجموعی طور پر 153 ملی میٹر بارش ہوچکی ہے جو کہ سالانہ اوسط بارش کا 90 فیصد ہے۔۔ اگر یہ ہی بارش اسلام آباد میں ہوتی تو شاید بارش ختم ہونے کے آرھا گھنٹے کے اندر اندر کس علاقے میں پانی کھڑا نظر نہیں آتا۔۔ اگر بات گنجان آبادی راولپنڈی کی جائے تو بہت سے عوامل کی وجہ سے وہاں اتنی مقدار میں بارش چند مقامات پر اربن فلڈنگ کی صورتحال ضرور پیدا کرتی مگر شاید ایک یا دو گھنٹے کے لیے۔۔ اور ایسا ان شہروں میں نکاسی آب کا کچھ بہتر نظام ہونے کے باعث ہے۔۔
کراچی کی صورتحال وہاں کے ڈرینج سسٹم کی وجہ سے ہے جہاں تھوڑی بارش بھی مسائل کو جنم دے دیتی ہے۔۔ کراچی میں نکاسی آب کے تقریبا 44 بڑے نالے ہیں۔۔ جن میں گجر نالہ اورنگی نالہ اور محمود آباد نالہ آٹھ سے 12 کلو میٹر طویل ہیں۔۔ اور یہی وہ نالے ہیں جو کراچی والوں کے لیے زیادہ مشکلات کا باعث بنتے ہیں۔۔
اس کے علاوہ 550 کے چھوٹے قریب برساتی نالے ہیں۔۔جن کا انتظام کراچی میونسپل کارپوریشن اور ڈی ایم سیز کے تحت ہے۔۔جن کی صاف ہوگی اس بات کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا ہے۔۔ اگر جائزہ لیا جائے پہلے کے وقت کا تو کر اچی کے پرانے وقت میں یہ نظام موجود تھا کہ اگر ایک دو گھنٹے بھی مسلسل بارش ہوتی تو پانی نکاسی ہو جاتی تھی اس کی وجہ اس وقت کے ذمہ دار حکمران تھے۔۔ لیکن ماضی قریب میں جو سٹرکیں بنی ہیں وہ مقامی نکاسی آب کے نظام سے منسلک نہیں ہیں۔۔ کیونکہ سڑکوں کی تعمیر میں ان بات کا خیال نہیں رکھا گیا۔ اور یہ یہ سبب ہے یہ مقامی ڈرین اپنی گنجائش کے مطابق پانی کا نکاس نہیں کر پاتیں اور یہ پانی شہری آبادیوں میں داخل ہو جاتا ہے۔۔ بارش کے بعد بیشتر افراد نے اورنگی ٹاﺅن کی گلی کا منظر ضرور دیکھا ہوگا۔۔ جس نے اس بارش کے بعد گندے نالے کا روپ دھار لیا اور برساتی پانی کی روانی سے کچھ ایسا محسوس ہوا کہ درحقیقت یہ جگہ نالے کے بہنے کی ہے۔۔جس کے اطراف شہریوں نے اپنے گھر تعمیر کر لیے ہیں۔۔یا پھر وہ ویڈیو جس میں فلاحی تنظیم الخدمت فائونڈیشن کے رضا کار مدرسے کی بچیوں کو سیلابی صورتحال کے علاقے سے نکال پر محفوظ مقام تک ریسکیو کرتے دکھائی دے رہے ہیں برساتی پانی میں تیرتی بیش قیمت گاڑیوں اور گھروں کے اندر موجود قیمتی سازوسامان کی تباہی کی ویڈیوز تو اتنی کثیر تعداد میں ہیں کہ گننے میں نہیں آتیں۔۔ اورنگی ٹائون اور اس نوعیت کی دوسرے ویڈیوز پر ہونے والی سیاست پر بات ایک طرف پر یہ ایک اہم سوال ہے۔۔ کراچی میں بارش ہوئی کتنی اربن فلڈنگ کی صورتحال کیوں پیدا ہوئی اس مسائل کو باآخر حال کب کیا جائے گا اگر ملک کے کسی اور شہر میں اتنی بارش ہوتی تو صورتحال یہ نہیں ہوتی۔۔۔ صرف کراچی والوں کے ساتھ ایسا سوتیلا سلوک کیوں کیا جا رہا ہے۔۔۔ کراچی کی صورتحال کا المیہ یہ ہے۔ ہر ادارہ ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈالتا ہے اور ان مسائل کو حق کرنے میں اگر آواز اٹھائی جائے۔۔ تو کراچی پر حکوت کرنے والا دوسرے ملک میں بیٹھ کر ٹویٹ کرتے ہیں۔۔بارش میں پانی کے ساتھ مینڈک بھی نکل آتے ہیں۔۔ یا پھر یہ کہا کر اپنی بے حسی کی انتہا کر دیتے ہیں۔۔جب زیادہ بارش ہوتی ہے تو زیادہ پانی آتا ہے۔۔کراچی میں بارشوں سے تباہی اور لوگوں کا سامان بہہ جانے کے پیچھے کون ذمہ دار ہے لوگ پیسے اکٹھے کر کے یا کمیٹیاں ڈال کے گھر کا سامان جمع کرتے ہیں۔۔اور یہ سامان جب بارش کے گندے پانی میں بہتا ہو گا تو ان لوگوں کیا حالات ہوتی ہوگی۔۔ بات صرف احساس پر انحصار کرتی ہے۔ جو کراچی پر حکومت کرنے والے نہیں کرتے ہیں۔۔وہ جن ملکوں میں بیٹھ کر ٹویٹ کرتے ہیں ایسے ملکوں میں اگر طوفانی آفت میں شہروں کا نقصان ہو جائے تو حکومت ان کو اس نقصان کے پیسے دیتی ہے۔۔مجھے تو غلطی حکمران سے کہی زیادہ کراچی کی عوام کی نظر آتی ہے۔ جو اپنی زبانوں کے چکر میں ان حکمران کو پوج رہی ہے۔۔ جس دن کراچی کی عوام نے یہ سوچ لیا کہ وہ ان کے محتاج نہیں بلکہ یہ حکمران اس عوام کی محتاج ہے۔۔ تواس دن کراچی کی عوام اپنے سارے مسائل کو حال کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔۔ پر اس کے لیے کراچی کی عوام میں اتحاد کی اہم ضرورت ہے۔۔ اللہ پاک کراچی کو ایمان دار حکمران سے نوازے۔ آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں