تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ 824

جوتے بازی

بات چل نکلی ہے جب جوتوں کی تو موجودہ سوشل کے دور میں تو آغاز اس کا ہوا جارج بش سے جو یہودیوں یا اسرائیل کا سب سے بڑا یار تھا مگر نوبت اس کی ہمارے علاقے تک پہنچ گئی ہے۔ اب ہم مقابلہ کررہے ہیں اس قوم سے جو ایک دور میں اللہ کی سب سے برگزیدہ امتوں میں شمار ہوتی تھی جب کہ ہمارا شمار نہ تین میں، نہ تیرہ میں۔ جب کہ جوتے بازی میں مقابلہ کررہے ہیں ان قوموں سے جو ہر طور پر ہمارے مقابلہ میں بہت بہتر حیثیت رکھتی ہیں۔ ابھی نوبت صرف جوتوں تک ہی پہنچی ہے۔ ہماری نوعیت کچھ ہے کہ جس کا جوتا اس ہی کا سر۔ یعنی ہم نے اپنے معاشرے کی تشکیل جس انداز سے کی اس میں یہ ہی سب کچھ ہوتا تھا۔
ببول بوئیں گے تو کانٹے ہی ملیں گے
موجودہ دور کے سب سے پسندیدہ عالم دین جناب مولانا طارق جمیل اپنے حسن بیان اور اپنی علمیت کی وجہ سے ہر فکر و طبقہ میں یکساں مقام و مرتبہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے خطاب میں ایک بار فرمایا کہ اللہ نے ہر دور میں مختلف اُمتوں کو اتارا مگر تمام امتوں میں مسلمان بہترین امت قرار پائے اور یہودی ب سے بدترین امتوں میں شمار ہوئے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل پر جب سہولتیں نازل کیں، من و سلوا اتارا جاتا مگر جب وہ امت نافرمان ہوئی تو اس کو بدترین عذاب میں بھی مبتلا کیا گیا مگر مسلمانوں کو ان کے گناہوں کے باوجود بخشش کے راستے بھی مہیا کئے گئے اور مسلمانوں کو صرف امت مسلمہ ہونے کی وجہ سے چار فضیلتیں بھی دیں جس کی وجہ سے بقول مولانا طارق جمیل مسلمانوں کا ہر فرد تمام دوسری امتوں کے مقابلے میں چار پھولوں والا جنرل ہے جس طرح فوج میں چار پھول والا لیفٹیننٹ جنرل ہوتا ہے اس ہی طرح ہر مسلمان پوری امتوں میں جنرل ہوتا ہے اور سب سے زیادہ مردود بنی اسرائیل ہوئے ہیں۔ مولانا طارق جمیل سے پہلے ایک اور اسلام کے بہت بڑے عالم ڈاکٹر اسرار احمد تھے جن کے علم اور فضیلت کی تمام عالم اسلام میں بہت قدر کی جاتی تھی۔ وہ اپنے وقت کے بڑے عالموں میں شمار ہوتے تھے انہوں نے ایک بار اپنے خطاب میں فرمایا کہ امت مسلمہ اور خاص طور پر اسلام کے مراکز عرب جب راہ سے بھٹکنے لگے تو ان کو جو حزیمت اٹھانی پڑے گی وہ یہودیوں کے ہاتھوں ہو گی۔ یعنی سب سے زیادہ فضیلت والی امت کو اللہ سب سے مردود امت کے پیروکار یہودیوں کے ہاتھوں ذلت اٹھانی پڑے وہ یہودیوں کے ہاتھوں تاراج ہوں گے۔ ان کو سزا ہو جائے گی تو دنیا میں ہی ان کے گناہوں کی سزا مل جائے گی اس طرح امت مسلمہ خدا کے عذاب عظیم سے بچ جائے گی جس طرح کے عذاب دوسری امتوں پر آئے مگر اللہ کے عذاب سے بچ کر رہنے والی یہ امت دنیا میں ہی سزا اس طرح پائے گی جس طرح بقول ڈاکٹر اسرار احمد کے راجپوت کو جب بھی سزا دی جاتی تو اس کے سر پر جوتا کسی راجپوت سے نہیں بلکہ علاقے کے چمار سے لگوایا جاتا۔ اس ہی طرح اللہ کی سب سے مردود قوم سے ان عربوں کو سزا دی جائے گی جو کہ اب ایک اسرائیل کی شکل میں ایک ملک کی حیثیت سے علاقے میں طاقتور بن گئے ہیں یعنی اس عذاب زدہ قوم کو اللہ نے قائم ہی اس لئے رکھا تھا کہ ان سے وہ ہی کام لیا جائے جو چمار سے راجپوت کو سزا دینے کا کام تھا۔ یہ کام لینے کے بعد جب مسلمانوں کو ہوش آئے گا تو پھر ان کے ہاتھوں بنی اسرائیل کی بچی کچی امت کا خاتمہ ہوگا۔
ہم نے دو بڑے عالموں کی آراءمسلمانوں اور یہودیوں کے بارے میں بیان کردی۔ اس موقع پر ہمیں پھر شیخ سعدیؒ کی ایک حکایت یاد آرہی ہے کہ اسرائیل کا وجود فلسطین میں کیسے ہوا ہو گا۔ حکایت ہے شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں، میں نے کسی کتاب میں پڑھا تھا کہ بچھو کی پیدائش عام جانداروں کی طرح نہیں ہوتی، جب وہ اپنی ماں کے پیٹ میں کچھ بڑا ہو جاتا ہے تو وہ اپنی ماں کا پیٹ اندر سے کاٹنے لگتا ہے اور یوں سوراخ کرکے ماں کے پیٹ سے باہر آجاتا ہے۔ شیخ سعدیؒ فرمانے لگے کہ میں نے یہ بات ایک عالم کے سامنے رکھی تو انہوں نے فرمایا کہ یہ بات درست ہو گی بلکہ درست ہونی چاہیے کہ بچھو کی فطرت اور عادت پر غور کیا تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس نے اپنی پیدائش کے پہلے دن سے دوسروں کو ڈسنے کی خصلت کی بناءپر وہ اپنے وجود دینے والوں کو ہی ڈستا ہے اس خصوصیت کو اگر موجودہ اسرائیل کے حوالے سے دیکھا جائے تو من و عن پوری اترتی ہے کہ وہ جس علاقے میں وجود پاتا رہا اس ہی علاقے کے لوگوں کا عرصہ حیات تنگ کرکے رکھا ہے کیونکہ ان پر حاوی ہے، یہی وجہ ہے کہ جو ممالک اس سے رابطے رکھے ہوئے ہیں اور اسرائیل سے مختلف قسم کے تعلقات رکھتے ہیں یا اس کو تقویت پہنچانے کا باعث ہوتے ہیں کہ وہ اس کا ضرور شکار ہوں گے اب سے کچھ عرصہ پہلے تک وہ کس طرح کے امریکہ کے نائب صدر اور وزیر خارجہ کو ذلیل کرتا رہا، کس طرح ان کی مرضی کے خلاف مقبوضہ علاقوں میں بستیاں بساتا رہا ان کے منہ پر کانچ ملتا رہا۔ آج سعودی عرب، مصر اور اردن کے حکمران بھی بچھو کی ماں کا حشر اپنے سامنے رکھیں۔ آج بارک امامہ تمام دنیا کے مسلمانوں کے نمائندوں کے سامنے اسرائیل کی حمایت کررہا ہے۔ کل آنے والے وقت میں اس کے منہ پر کالونچ نہیں بلکہ مٹی ڈالے گی اور ان مسلمان حکمرانوں کا حشر تو ڈاکٹر اسرار احمد کے بقول چمار کے جوتے ان کے سروں پر پڑوائے جائیں گے۔
وہ وقت بھی دور نہیں جب وہ فرانس اور برطانیہ کا حشر بھی بچھو کی خاصیت کے حساب سے ضرور کرے گا۔ دنیا کے تقریباً ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے نمائندے وائٹ ہاﺅس میں بچھو کے سرپرست یعنی اوبامہ کی طرف سے دی ہوئی افطار پارٹی میں شریک تھے جن میں اسرائیل کے سرپرست اسرائیل کی تعریف کے پلندے بنا رہے تھے۔ مسلمان ملکوں کے نمائندے اپنا سر اس بات پر بلند کررہے تھے کہ ان کو وائٹ ہاﺅس میں افطار ڈنر کرنے کا موقع میسر ہوا، کسی نے ان نہتے مقبوضہ غزہ کے مسلمانوں سے ہمدردی میں ایک لفظ تک نہیں کہا جہاں تقریباً پانچ سو سے زائد شہریوں کو گاجر مولی کی طرح قتل کردیا گیا۔ ان میں سے اکثریت بچوں، خواتین اور بوڑھوں کی ہے۔ کسی کے منہ سے اسرائیل کے خلاف ایک لفظ ادا نہ ہوا وہ سب اس بچھو کو طاقتور بنانے کا باعث بن رہے تھے، بچھو کی خاصیت تو یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنی پیدائش دینے والی ماں کا پیٹ کاٹ سکتا ہے تو وہ یقیناً ان تمام ملکوں کو جنہوں نے سب سے پہلے اس بچھو کو فلسطین میں لا کر پروان چڑھایا وہ بھی اس بچھو کے ڈنگ سے نہیں بچ سکیں گے اور وہ عرب مسلمان ملکوں کے حکمران بھی اس سزا سے نہیں بچ سکیں گے جو کہ ڈاکٹر اسرار کے مطابق ان کے لئے چمار کے جوتے کے مترادف ہوگی جو ان کے لئے سزا ہی نہیں ہو گی بلکہ ان کی بے عزتی کا باعث بھی ہوگی۔ اس کو اللہ کی طرف سے دیا ہوا عذاب کہہ لیں یا غزہ کے مظلوم معصوم بچوں کی سسکیا یا بوڑھے لوگوں کے دلوں سے نکلنے والی آہیں جو کہ اسرائیل کے اور اس کے وجود دینے والوں کے لئے بددعائیں بن کر عرش کو ہلا رہی ہوں گی۔ جس کی وجہ سے سب اپنے اپنے وقت پر سزا ضرور پائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں