سیاسی رسم 434

دنیا کے لئے کرونا وائرس عذاب الٰہی

دنیا بھر میں کرونا وائرس کی وجہ سے ایک خوف و دہشت پھیل گیا ہے، اس وبا کی وجہ سے امریکا، برطانیہ سمیت پوری دنیا میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ گزشتہ برس دسمبر میں چین کے شہر ووہان سے سامنے آنے والا کرونا وائرس اب تک دنیا میں دو سو دس ملک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ دنیا بھر کے سپرپاور ملک اس وبا کے پھیلاﺅ کو روکنے کے لئے بہترین اقدامات کے باوجود اس وہا کو جڑ سے ختم کرنے میں بے بس نظر آرہے ہیں۔ اس عالمگیر وبا سے بچاﺅ کا واحد ذریعہ صرف احتیاطی تدابیر بتائی جارہی ہے۔ جس پر عمل کرکے ہر انسان اپنی زندگی محفوظ کر سکتا ہے۔ تاہم سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ویکسین کی تیاری، ٹیسٹنگ اور پھر مارکیٹ میں آنے میں کم از کم ایک سے ڈیڑھ سال کا عرصہ لگے گا۔ کرونا وائرس سے دنیا بھر میں اب تک متاثرہ افراد کی تعداد 20 لاکھ سے زائد ہو گئی ہے جب کہ اموات ایک لاکھ 26 ہزار سے تجاوز کر گئی ہیں۔ دنیا بھر میں دن بدن کرونا وائرس کی وجہ سے اموات اور متاثرہ لوگوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس وبا سے اموات اور متاثرین کے سبب دوسرے لوگوں میں نفسیاتی دہشت کا گھیرا بڑھتا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے دنیا بھر کے مختلف ممالک میں خودکشی کی بھی اموات پیش آرہی ہیں۔ کرونا وائرس کے پھیلاﺅ کو روکنے کے لئے جب سے متعدد ممالک میں لاک ڈاﺅن کیا گیا ہے اس وقت سے ہی زیادہ تر لوگ کہیں نہ کہیں ڈپریشن اور بے چینی کا شکار ہیں۔ اس صورتحال میں بے چینی اور ڈپریشن کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ دنیا بھر میں ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد بھی مزید تناﺅ میں مبتلا ہو رہی ہے۔
جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع کی جانے والی حالیہ تحقیق کے مطابق کرونا وائرس کے لوگوں کی دماغی صحت پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ان تمام صورت حال کے پیش نظر گھریلو تشدد اور بچوں سے بدسلوکی کے واقعات میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے جو قابل فکر و غور ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے کرونا وائرس کے باعث مرنے والوں کی تدفین کے لئے گائیڈ لائنز جاری کر دی ہیں، عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تدفین میں احتیاط بہت اہم ہیں، خاندان کے افراد اور دوست ایک میٹر کے فاصلہ سے جنازہ کو دیکھ سکتے ہیں لیکن لاش کو ہاتھ نہیں لگا سکتے۔ نہ ہی چوم سکتے ہیں۔ جنازہ دیکھنے کے بعد اپنے ہاتھوں کو اچھی طرح صابن سے دھوئیں، عالمی ادارہ صحت کی جاری کی گئی ہدایات کے مطابق اس بات کو یقینی بنائیں کہ خاندان کے افراد ہر ممکن حد تک میت سے دور رہیں۔ بچے اور 60 سال کی عمر کے افراد کو تدفین میں شرکت نہیں کرنی چاہئے۔ ایسے افراد جن کو سانس، دل اور ذیابیطس کی بیماری ہے، یا جن کا جسمانی نظام سے کمزور ہے، ان کو بھی کفن دفن میں شرکت نہیں ہونا چاہئے۔ میت کو غسل دینے والے شخص کو ہاتھوں میں دستانے کا استعمال بہت اہم ہیں، پانی کے چھینٹوں سے بچنے کے لئے طبی ماسک پہننا چاہئے اور آنکھیں بھی ڈھانکنی چاہئیں۔ پوسٹ مارٹم کرنے والوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ کرونا وائرس سے مرنے والوں کے مختلف اعضاءمیں کرونا موجود ہوتا ہے، اس لئے پوسٹ مارٹم کم سے کم افراد کا کیا جائے، اور وہ افراد کا جن کا پوسٹ مارٹم اہم ضروری ہو، اس کو حفاظتی طریقہ پر عمل کے ساتھ کیا جائے۔ دوسری طرف کرونا وائرس عالمی معیشت کو بھی بری طرح متاثر کررہا ہے۔
امریکی نیوز ایجنسی بلوم برگ کی جانب سے عالمگیر وبا کرونا وائرس کے عالمی معیشت پر اثرات کے حوالے سے رپورٹ پیش کی گئی ہے، بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں 1930ءکے بعد پہلی بار اس طرح کی گہری کساد بازاری کے دورہ میں ہے۔ بلوم برگ کی کرونا وائرس کے عالمی معیشت پر اثرات کی رپورٹ مانیٹری اور اقتصادی معاونت میں کئی گنا اضافہ ہے۔ تاہم پچھلی صورت حال تک واپسی کم از کم 2022 تک ہوگئی۔ کرونا کے سبب آئندہ 2 سال میں عالمی معیشت کے 5000 ارب ڈالر کھا جائے گی اور یہ دو سال کا خسارہ جاپان کی سالانہ پیداوار سے زیادہ ہوگا۔ اگرہم تاریخ میں آنے والی بھیانک وبا کی صورت میں بیماریوں پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے بھی خطرناک وبائیں آچکی ہیں۔ جس نے بے شمار انسانی جانوں کو نگل لیا۔ ان خوف ناک وباﺅں نے دنیا کا نقشہ ہی بدل ڈالا تھا۔ جس میں سے ایک بے حد خطرناک وبا جس کا نام ”سیاہ موت“ رکھا گیا تھا۔ ایک قسم کا طاعون تھا، جس نے تباہی مچا دی تھی، یہ وبا 1347ءسے 1353ءتک رہی تھی، طاعون کی اس وباءنے مشرقی ایشیا پر حملہ کیا اور وہاں سے مشرق وسطیٰ اور یورپ تک کو جکڑ لیا اور تقریباً 20 کروڑ افراد اپنی جان کی بازی ہار گئے تھے۔ تباہی اس قدر بدترین تھی کہ پورے شہر میں مردوں کو دفنانے والا کوئی نہیں بچا تھا۔ اس وبا کے اثرات کی وجہ سے تاریخ میں پہلی بار دنیا کی مجموعی آبادی کم ہو گئی تھی۔ اس کے علاوہ ایک اور وبا جسے تاریخ کی سب سے خطرناک وبا کہتے ہیں، جس کا نام ہسپانوی فلو سے جانا جاتا ہے۔ یہ وبا اس وقت پھیلی جب دنیا پہلی عالمی جنگ کی تباہی کے ملبے تلے دبی ہوئی تھی یعنی 1918ء1920ءکی بات ہے، دنیا بھر میں اس سے 5 کروڑ ڈالر افراد کی ہلاکتیں ہوئیں اس وقت جنگ کی صورت حال کی وجہ سے یورپ کے بیشتر حصوں میں اس فلو سے ہونے والی ہلاکتوں کو چھپایا گیا جب کہ اسپین چونکہ جنگ میں شامل نہیں تھا اور وہاں بڑی ہلاکتوں کی خبریں آنے کے بعد یہ تاثر ملا جیسے اس بیماری نے خاص طور پر اسپین کو ہدف بنایا ہے۔ اگر تاریخی دور میں اور آج کے دور کا جائزہ کرے تو معلوم ہو گا کہ ایسی وبا کسی قوم پر جب نازل ہوتی ہے جب خدا اس سے ناراض ہوتا ہے تو وہ وباءکی صورت میں غرور کرنے والوں کا ظلم کا راج توڑتا ہے۔ ”جب ظلم و ستم عروج پر ہو، انصاف صرف امیر کے حق کے لئے ہو، امیر آدمی پیسے کے زور پر غریب انسان پر حاوی ہو، بے حیائی کے کام عام ہو جائیں، مظلوم کے حق میں کوئی حق کی بات کرنے والا نہ ہو، جب بچوں کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہو، اور صرف دنیا کو دیکھانے کے لئے نام کی عبادت لوگ کررہے ہوں، انسانیت آہستہ آہستہ مر رہی ہو، مذہب کے نام پر دنیا میں فساد عام ہو جائے تو پھر خدا پاک بتاتا ہے ”عالمگیر وبائیں“ کی صورت میں اپنی طاقت کا اور انسان کو احساس دلاتا ہے اس کی محتاجگی کا کہ انسان کتنا بے بس ہے خدا کے حکم کے آگے۔
ظلم و ستم پر واجب ہے زوال انسان کو
اے انساں تو دیکھ تو صحیح اس وبا کے پیچھے اپنے فساد کو

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں