۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 141

سری لنکا؟

سری لنکا جو دنیا میں سیاحوں کی جنت کہلاتا تھا جس کی معیشت اپنی برآمدات کے باعث انتہائی مستحکم تھی جب کہ تامل شدت پسندوں کے خلاف مہم کے دوران بھی کبھی اس کی معیشت پر سوال کھڑے نہیں ہوئے، وہی ملک آج دنیا میں انتہائی بدترین اقتصادی کی مثال بن کر رہ گیا ہے اور ہر خراب اقتصادی صورت حال ملک کو سری لنکا سے مثال دی جاتی ہے۔
یہ ملک جو اپنی جمہوری روایات کے باعث ایک نیک نام قوم کے باعث پہچانا جاتا تھا جس کی انسان دوست کی پالیسی مثال تھی جو ساری دنیا کو آنکھوں کا عطیہ دیتا تھا جس سے کروڑوں افراد کی آنکھیں روشن ہیں اس پر آخر کیا افتاد پڑی کہ وہ ایک دیوالیہ ملک بن کر رہ گیا کہ ساری دنیا کے لئے نشان عبرت بنا ہوا ہے اس سلسلے میں کوئی پہیلی نہیں ہے بلکہ اس ملک کے کرپٹ خاندان نے ملکی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر اس جنت نظیر ملک کو جہنم بنا دیا جہاں کے عوام آج اقتصادی طور پر پست ترین درجے پر آگئے ہیں، جہاں کا زرمبادلہ صفر پر ہے جہاں پیٹرول لینے کے لئے میلوں طویل قطاریں لگا ہوئی ہیں، لوگ کھانے پینے کی اشیاءلینے کے لئے گھنٹوں انتظار کرتے ہیں، جہاں ایک بھائی صدر اور دوسرا وزیر اعظم بنا ہوا تھا، اور ملکی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر غیر ممالک میں جمع کردی تھی اور پھر عوام سے جان بچانے کے لئے فوجی اڈوں میں پناہ گزین ہو گئے، ان حالات کے تناظر میں اور کچھ ایسے ہی حالات کے پیش نظر آج دنیا پوچھ رہی ہے کہ کیا پاکستان اگلا سری لنکا بننے والا ہے؟ جہاں ذرمبادلہ، گیس و تیل اور بجلی کا بحران شدید تر ہو چکا ہے۔ زرمبادلہ اب ایک چوتھائی سے بھی کم رہ گئے ہیں، تیل کے ذخائر انتہائی کم ترین سطح پر ہیں، جس کے باعث پاور اسٹیشنوں کو ان کی فراہم خطرناک حد تک کم ہو چکی ہے لہذا بجلی کی فراہمی میں اتنی کمی آئی ہے کہ 16 – 16 گھنٹے تک کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے، جس کے باعث صنعتیں بند ہو گئیں ہیں، گیس کی عدم فراہمی سے گھریلو صارفین کے ساتھ ساتھ صنعتی امور پر بھی خطرناک حد تک اثر پڑا ہے اور وہاں اب کام بند ہیں لہذا برآمداتی آرڈر کی تکمیل ممکن نہیں ہے اور اس طرح بیرونی مارکیٹیں ان کے ہاتھ سے نکل رہی ہیں جب کہ بے روزگاری میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے اس سلسلے میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے سابق چیئرمین شبرزیدی نے دل دہلانے والے انکشافات کئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بجلی کی فراہمی اس حد تک کم ہو چکی ہے، لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 16 گھنٹے سے زائد ہو چکا ہے جب کہ زرمبادلہ کے ذخائر نصف سے بھی کم سطح پر پہنچ گئے ہیں اور یہ روز بروز کم ہو رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اب تصورات کی دنیا سے نکل کر حقیقت کا سامنا کرنا چاہئے۔ اب عوام کو بتلا دینا چاہئے کہ پاکستان اب دیوالیہ ہونے کی طرف جارہا ہے، اس کی وجہ فنڈز کی کمی اور ملک میں سیاسی طور پر افراتفری اور غیر یقینی صورت حال ہے۔
کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کیا کرنا ہے جس کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کار تو ایک طرف اب ملکی سرمایہ کار بھی اپنا سرمایہ ملک سے باہر منتقل کررہے ہیں، ان کے مطابق تیل کی قیمتیں دگنی سے زائد ہو چکی ہیں، صرف ایک ہفتہ میں 60 روپیہ بڑھا کر اب 209 روپیہ سے زائد ہو چکی ہیں جب کہ پاکستانی روپیہ گراوٹ کی راہ پر ہے اور ایک ڈالر 204.15 روپیہ کا ہو چکا ہے جس کے باعث بیرونی قرض کئی سو فیصد بڑھ چکی ہے، ان کے مطابق کھانے کے تیل کی قیمتیں بھی آسمان کو چھو رہی ہیں، گھی 208 روپیہ کلو سے بڑھ کر 555 روپیہ کلو پر پہنچ چکا ہے جب کہ کھانے کا تیل 213 روپیہ لیٹر سے بڑھ کر 605 روپیہ لیٹر ہو چکا ہے، گزشتہ چھ ماہ میں 300 روپیہ فی لیٹر کا اضافہ ہو گیا ہے جس کے باعث مہنگائی نے لوگوں کی کمر توڑ دی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بجلی کی کمی نے لوگوں کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے، شہری علاقوں میں 12 گھنٹے اور دیہات میں 16 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے، ادھر بے نظیر دور میں قائم کئے گئے پاور پلانٹس کو ادائیگیاں نہ ہونے کے باعث انہوں نے 1980 میگاواٹ بجلی کی فراہمی روک دی ہے، جس کے باعث غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ سے بڑے بڑے شہر بھی تاریکی میں ڈوب گئے ہیں اور صنعتوں میں پیداوار رک گئی ہے۔ ادھر تیل کی درآمدی قیمت دگنی ہو چکی ہے، جس کا سبب اشیا کے سیاسی حالات اور غیر یقینی صورت حال ہے اسی کے باعث پاکستان کا تجارتی خسارہ 45 ارب روپیہ پر پہنچ چکا ہے جب کہ پریشان کن صورت حال یہ ہے کہ گزشتہ اگست میں ہمارے ذخائر 10 ارب ڈالر تھے جو صرف دو ماہ کی درآمد کے لئے ہیں، اس کے بعد کیا ہوگا؟ ادھر حکومت کے اقدامات کہ ہفتہ کو چھٹی، مارکیٹوں کو ساڑھے آٹھ بجے بند کرنے کا فیصلہ، شادیوں کے اوقات 10 رات تک محدود، شاہراہوں پر بجلی کو ایک ایک رات چھوڑ کر بند کرنا، سرکاری افسرں کی گاڑیوں کی خریداری پر پابندی، دفاتر میں ایئرکنڈیشن بند کرنا، سرکاری طور پر پیٹرول کے استعمال پر 40 فیصد کمی اور غیر ملکی دوروں پر پابندی شامل ہے۔ تاہم ان ساری باتوں کے باوجود اقتصادی طور پر دیوالیہ کے کنارے پر ملک پہنچ چکا ہے۔ اب سب کی نظریں آئی ایم ایف پر لگی ہوئی ہیں کہ پھر ایک مرتبہ اسے مونگ پھلی کے دانے کے برابر امداد دے کر اس بلا کو ٹال دے لیکن اس کے لئے حکومت کو تمام سبسڈیز کو ختم کرنا ہو گا جس کے باعث مہنگائی کا جن بوتل سے نکل کر پورے ملک کو اپنی گرفت میں لے لے گا اور سیاسی افراتفری میں عوامی ردعمل شدید تر ہو جائے گا۔ ترقی نہ صرف رک جائے گی بلکہ تنزلی کی طرف تیزی سے سفر ہو جائے گا۔ صورت حال اس جگہ پہنچ جائے گی کہ بین الاقوامی مالی ادارے ہمیں فوج کی کمی، ایٹمی اثاثوں کو ختم کرنے، ہندوستان سے اس کی شرائط پر معاہدے کرنے کے لئے دباﺅ ڈالیں گے اور ان کے پس پشت سی پیک اور چین سے تعلقات کو ختم کرنے کے لئے مطالبات ہوں گے اور جسے کہتے ہیں ”فقیر کو کسی بات کا حق نہیں ہوتا“ ہم کاسہ گدائی لے کر ساری دنیا کے سامنے سر جھکائے کھڑے ہوں گے اور ہمارے غاصب حکمران لندن، دوبئی اور امریکہ میں اپنے محلات میں چین کی بانسریاں بجا رہے ہوں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں