۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 614

سگِ شکم

ایک حکایت ملاحظہ فرمائیں۔ امیر المومنین (واللہ عالم) ہارون رشید نے اپنے خانماں سے پوچھا کہ آج کھانے میں اونٹ کا گوشت کا سالن ہے؟ اس نے کہا کہ ”ہاں“ موجود ہے۔ شوربے والا بھی اور روسٹ کیا ہوا بھی۔ حکم ہوا کہ کھانے کے ساتھ پیش کیا جائے۔ جب اس نے کھانا سامنے رکھا تو اس نے اپنے منہ میں رکھنے کے لئے گوشت کا لقمہ اٹھایا تو اس کا وزیر اعظم جعفر برمکی مسکرایا۔ ہارون نے لقمہ رکھ دیا اور جعفر سے مسکرانے کا سبب دریافت کیا، اس نے کہا مجھے کوئی بات یاد آگئی جو میری باندی کے درمیان ہوئی۔ اس کا آپ کی ذات سے کوئی تعلق نہیں۔ ہارون نے کہا کہ تجھے قسم ہے اس حق کی جو میرا تیرے اوپر ہے، مجھے بتا کہ کیا بات ہے؟ جعفر برمکی نے کہا کہ امیرالمومنین پہلے یہ لقمہ تناول فرمالیں پھر آپ کو بتاﺅں گا۔ ہارون نے لقمہ پلیٹ میں رکھ دیا اور کہا کہ مجھے بتا کیا بات ہے؟ جعفر نے کہا کہ اے امیر آپ اندازہ لگائیے کہ جس اونٹ کا گوشت آپ کے مطبخ میں پکا ہے وہ کتنے کا ہوگا؟ اس نے کہا کہ یہی کوئی چار ہزار درہم کا۔ جعفر نے کہا کہ آپ نے طویل عرصہ قبل مطبخ میں اونٹ کے گوشت کی فرمائش کی تھی جو اس دن اونٹ ذبح نہ ہونے کے باعث پوری نہ ہو سکی تھی تو آپ نے فرمایا کہ مطبخ میں اونٹ کا گوشت ضرور پکنا چاہئے۔ اس دن کے بعد سے داروغہ مطبخ آپ کے لئے اونٹ کا گوشت بازار سے نہیں خریدتے تھے بلکہ اونٹ خرید کر اسے ذبح کرتے تھے اور اپنی نگرانی میں پکواتے تھے اور اس دن سے لے کر آج کے دن تک چار لاکھ درہم کے اونٹ ذبح ہوچکے ہیں لیکن آپ نے اس دن کے بعد سے اونٹ کا گوشت کا سالن طلب نہیں کیا تھا جو کہ آپ کے سامنے پیش کیا گیا ہے جعفرنے کہا کہ میں اس لئے مسکرایا یہ لقمہ جو آپ لے رہے ہیں آپ کو چار لاکھ درہم کا پڑا ہے یہ سن کر ہارون رشید نے روتے ہوئے دسترخوان اٹھانے کا حکم دیا اور خود کو کوسنے لگا اور اذان ظہر تک روتا رہا۔ پھر لوگوں کو نماز پڑھائی اور پھر واپس آکر رونے لگا۔ حتیٰ کہ عصر کا وقت ہوگیا اس دوران وہ روتا رہا اس درمیان اس نے حرمین شریفین کے فقراءمیں دو لاکھ درہم تقسیم کرائے، اسی طرح اس نے چاروں دروازوں پر دو دو لاکھ درہم فقراءمیں تقسیم کرائے اور اپنے اوپر کھانا حرام کرلیا۔ حتیٰ کہ نماز مغرب پڑھا کر فارغ ہوا تو قاضی ابو یوسف آگئے انہوں نے خلیفہ سے سارا دن گریہ و زاری اور بھوکا رہنے کی وجہ پوچھی جس پر اس نے انہیں سارا قصہ سنایا اور کہا کہ اس نے بیت المال کا اتنا پیسہ محض اپنی خواہش پوری ہونے پر بے جا صرف کیا جس میں سے میرے حصہ میں صرف ایک لقمہ آیا۔ قاضی نے وزیر اعظم جعفر برمکی سے پوچا کہ جو اونٹ ذبح کرائے جاتے تھے اور ان کا گوشت پکایا جاتا تھا جو پکا وہ خراب ہو جاتا تھا یا اسے لوگ کھا لیتے تھے اس نے بتایا کہ لوگ کھا لیا کرتے تھے۔ قاضی نے خلیفہ سے کہا کہ آپ اللہ کی بشارت حاصل کیجئے کہ تمہاری وجہ سے اتنا عرصہ شاہی غذا کھاتی رہی اور تم اپنی اس خطا پر گریا کرتے رہے اور اللہ سے معافی طلب کرتے رہے اور پھر لوگوں کو صدقہ دیتے رہے۔ اب ذرا آجائیے اپنے خودساختہ امیرالمومنین کی طرف بن کی زندگی کا مقصد یہی ہے کھانا اور صرف کھانا ہی ہے کہ بقول مختار رطوی مرحوم
آگے پیچھے دایا بایاں
کھائیں کھائیں اور کھائیں
سو ہمارے حکمرانوں میں سب کا رویہ یہی رہا کچھ کو بدنام کیا گیا اور کچھ ایسے کہ ان کے نام کے ساتھ ایک دم دسترخوان سامنے آکر کھڑا ہو جاتا ہے اس ملک کے بنانے والے اور وہ جو کہ بانی پاکستان کہلائے جاتے ہیں ان کا یہ حال کہ جب گورنر جنرل ہاﺅس میں ایک بڑی ڈبل روٹی آتی تھی تو وہ دو افراد قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور محترمہ فاطمہ جناح کے لئے بہت زیادہ تھی سو اس بیکری سے کہا گیا کہ ہمیں چھوٹی ڈبل روٹی بھیجا کرو۔ مگر بیکری والوں کے یہاں چھوٹی ڈبل روٹی نہیں تھی لہذا ان دونوں کے لئے ایک خصوصی چھوٹی ڈبل روٹی بنائی جاتی تھی جس کا سانچہ آج بھی میوزیم میں رکھا ہوا ہے۔ خواجہ ناظم الدین جو نوابین ڈھاکہ میں سے تھے کہ متعلق لوگوں نے اڑانا شروع کردیا کہ وہ بسیار خور ہیں اور خصوصاً مرغ مسلم کے بڑے شوقین ہیں ان کے دور میں ہی گندم کی قلت ہوئی تو انہیں ”قائد قلت“ کا خطاب دیدیا گیا مگر آج کے دور کے دو حکمرانوں نے تاریخ میں اگر دولت ڈکارنے میں نام پیدا کیا تو شکم کی دوزخ بھرنے میں بھی وہ کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ زرداری کی سب سے بڑی کمزوری بھنڈی ہے۔ (ایان علی کے علاوہ) سو اس کے دسترخوان پر اگر بھنڈی وہ بھی فرائی موجود نہ ہو تو مزاج شاہانہ برہم ہو جاتا ہے لہذا ایک دفعہ بے نظیر بھٹو کے دور اقتدار میں موصوف بھی دورہ شاہی میں شامل تھے اور فرانس میں قیام کے دوران یہ جان گداز واقعہ ظہورپذیر ہوا کہ بھنڈی فرانس میں دستیاب نہیں تھی، چاروں اور لوگ دوڑائے گئے کہ کہیں سے بھنڈی پیدا کرکے لائی جائے اور آکرکار طے پایا کہ دو خصوصی باورچیوں کو پاکستان بھیجا جائے جو وہاں وزیر اعظم کے چہیتے کے لئے بھنڈی لے کر آئیں اور وہ اسے تناول فرمائیں اس سلسلے میں پی آئی اے والے بھی بہتر جانتے ہیں کہ چند روپیہ کی بھنڈیوں کے لئے انہیں کتنے کروڑ کی چپت پڑی۔ کھانا (ہر قسم کا) ان کی کمزوری تھی اسی طرح الجزائر کے دورہ پر بے نظیر کے دوران وی وی آئی پی فلائیٹ کے عمائدین کے لئے جن میں خصم وزیراعظم زرداری بھی شامل تھے الجزائر سے بغداد جانے والی کراچی میں پی آئی اے کے فلائیٹ کچن سے وہ ماہر باورچی بطور خاص الجزائر بھیجے گئے تاکہ وہ عمائدین کی شکم سیری کے لئے خاطرہ خواہ کھانے تیار کرسکیں۔ باورچی فلائیٹ سے دو دن قبل الجزائر پہنچ گئے تھے تاکہ مینو تیار کریں اور اس کے حساب سے کھانے کا اہتمام کریں انہوں نے اعلان کیا کہ زرداری صاحب کو بھنڈی بہت پسند ہے اور محترمہ بھنڈی دسترخوان پر نہ ہو تو وہ نوالہ نہیں توڑتے، اب مشکل آن پڑی کہ الجزائر میں بھنڈی کا موسم نہیں تھا اور بازار میں بھنڈیاں نہیں تھیں۔ لیکن باورچیوں کا اصرار تھا کہ انہیں بھنڈی بحر طور چاہئے ہی چاہئیں۔ سفیر محترم (کرامت اللہ غوری) نے بہت سمجھایا کہ بھنڈی جب مقامی طور پر دستیاب نہیں ہیں تو بھنڈی نہ پکائیں۔ لیکن باورچیوں نے روہنسا ہو کر کہا کہ اگر زرداری صاحب کے دسترخوان پر بھنڈی شریف نہ ہوئی تو ان کی نوکریاں تو گئیں۔ زرداری کوئی معمولی آدمی نہیں تھے بلکہ وزیر اعظم کے شوہر نامدار تھے کہ موسم انہیں مات دیدے۔ دفتر خارجہ کے چیف پروٹوکول ارشد سمیع (والد عدنان سمیع حال انڈین شہری) نے سفیر محترم سے کہا کہ بھنڈی کا انتظام ضرور کرایا جائے ورنہ سب کا نزلہ سفیر پر گرے گا کہ کیسا نا اہل ہے کہ ایک بھنڈی کا بندوبست نہ کر سکا اور وہ بھی زرداری کے لئے۔ سو فرانس سے بذریعہ پارسل بھنڈیاں الجزائر پہنچائی گئیں اور وزیر اعظم کے نکھٹو شوہر کے لئے پکائی گئیں جس سے باورچی بھی شاد ہوئے (اقتباسات از روزگار سفیر کرامت اللہ غوری صاحب)۔ اب دوسرے جو امیر المومنین بنتے بنتے بچ گئے ورنہ وہ بھی ہارون رشید جیسے امیر المومنین ہوتے ان کی تو بات ہی کچھ اور ہے ان کے لئے نہ صرف مشہور ہے بلکہ راقم الحروف کے ذاتی مشاہدے کی بات ہے کہ ان کے ناشتے میں اگر ”فجے“ کے پائے نہ ہو تو نظام ہستی میں تلاطم آ جاتا ہے وہ ماشاءاللہ نہ صرف بیسار خور ہیں بلکہ چٹ پٹ کھانے اور خوشامدی بھی ان کی زندگی کا محور ہے ان کے شاہی سفر میں ان کے خصوصی باورچی حضرات شامل ہوتے ہیں جو ان کی شکم پوری کا پورا پورا بندوبست کرتے ہیں۔ اس شخص نے محض نہاری، دہی بڑے اور حلیم کے بدلے ایک گونگے کو پاکستان کا صدر بنا کر قوم کو ممنون کیا۔ پی آئی اے کے خصوصی طیارے ان کے لئے ہیرا منڈی کے مشہور عالم ”فجے“ کے پائے ان کے ناشتے کے لئے استعمال ہوتے رہے وہ دنیا میں کہیں بھی ہوں یہ نایبا ڈش ان کے دن کی ابتداءکراتی اور اب بھی غالباً جیل میں بھی انہیں یہ خصوصی خوراک انہیں مل رہی ہو گی کہ اس میں مغز بھی شامل ہوتا ہے جو ان جیسے بے مغز کے لئے انتہائی ضروری ہے اور ابھی حال ہی میں نیب کو پتہ چلا ہے کہ دہی بڑوں کی مد میں سرکاری خزانے سے 28 کروڑ روپیہ ادا کئے ہیں اب ذرا موازنہ کیجئے ہارون رشید اور حال کے امیر المومنین کے اوّل الذکر اس لئے رویا کہ بیت المال کا خزانہ بے دردی سے خرچ کیا اور ان امیرالمومنین پر ساری قوم رو رہی ہے کہ انہوں نے 22 کروڑ افراد کے پیٹوں پر لات مار کر اپنے پیٹوں کو بھرا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں