۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 661

طوائف الملوکیت

بہت سے حضرات نے ملکی معاملات میں بد نظمی، لاقانونیت، افراتفری، اکھاڑ پچھاڑ، لوٹ مار، کرپشن، سازشیں، دغا بازیاں، لوٹا گردی، ہارس ٹریڈنگ، چمچہ گیری، بکنا اور خریدنا، یوٹرن، وفاداریاں تبدیل کرنا، الغرض ایسی ہی لاتعداد مثالوں کے متعلق سنا ہوگا بلکہ کئی نسلوں سے سنتے چلے آرہے ہوں گے۔ مگر ایک اصطلاح کے بارے میں شاید نہ سنا ہوگا۔ یہ لفظ بھی شاید بہت سے لوگوں کے گوش گزار بھی نہیں ہوا ہوگا۔ سننے میں یہ لفظ عجیب سا لگتا ہے اور اسے سنتے ہی گھنگرﺅں کی چھم چھم اعضا کی شاعری، کوٹھے اور سجے بنے چہرے تصور میں آنے لگتے ہیں۔ مگر اس لفظ کا تعلق نہ ہی کسی دنیا کے قدیم ترین پیشے سے ہے، نہ ہی لاہور کی ہیرا منڈی۔ کولکتہ کی سونا گاچھی، نہ ہی آگرہ کے کناری بازار، نہ ہی لندن کے سوہو سے غرض دنیا کے ہر ملک اور خطے میں واقع بازار حسن سے اس کا کوئی رشتہ ہے نہ ہی واسطہ بلکہ یہ لفظ ہندوستان میں مسلمانوں کی حکمرانی کے دور کی یاد دلاتا ہے اور ساری دنیا میں جہاں جہاں حکمرانوں کے کرتوت اس حد تک بگڑ جاتے ہیں کہ نہ ان کے پا رکاب میں رہتے ہیں نہ ہی زمام سلطنت ان کے ہاتھوں میں، یہ ایسی صورت حال کی عکاسی کرتا ہے جس میں نہ حکمرانوں کو علم ہوتا ہے کہ وہ کیا کررہے ہیں اور جہاں وہ حکومت کررہے ہیں وہاں کیا بقول ڈاکٹر شاہد مسعود ”گھیڑدوس“ ہو رہی ہے۔ اب لفظ کو کہتے ہیں ”طوائف الملوکی“ مگر اس کا تعلق غریب طوائف سے ہر گز نہیں ہے، وہ غریب دکھیا تو خود ہی اس گردش ایام کی شکار ہو کر اس حال میں پہنچتی ہے تو یہ وہ صورت حال ہے کہ جو نام نہاد حکمران انقلاب زمانہ یا شطرنج کی چالوں کے ذریعہ سند اقتدار پر جا بیٹھتے ہیں۔ یہ غلطی سے کوئی نابینا ”ہما“ ان کے سر پر بیٹھ جاتی ہے۔ (جیسے ایک گنجے کے سر پر بیٹھ کر اس اقتدار سے منسوب پرندے نے اپنی مٹی خراب کرلی) اور وہ اس مسند پر براجمان ہو جاتا ہے۔ مگر اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ اب کیا کرے۔ ایسے حکمران جب تاج ان کے سر پر رکھ دیا جاتا ہے تو ان کی آنکھیں بند اور کان بہرے ہو جاتے ہیں جسی کی وجہ ان کے سر کی پیمائش سے بڑا تاج ان کی آنکھوں کو بند اور کانوں کو ڈھانپ لیتا ہے اور وہ پھر ان پانچ اندھے آدمیوں کی طرح جو ہاتھی کو ٹٹول ٹٹول کر کوئی اسے دیوار، کوئی درخت کے تنے، کوئی ایک بجلی سی چیز، کوئی بڑے بڑے پنھکیوں اور کوئی ایک اسی کی طرح بیان کرنے تھے اسی طرح یہ حکمران بھی گراں گوش اور بصارت سے محروم اپنے اردگرد کے افراد کی باتیں، مشورے اور خواہشات سن سن کر فیصلے کرتے ہیں ان کی ذاتی سمجھنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت مر جاتی ہے وہ ایک اندھے کی طرح ٹٹول ٹٹول کر چلتے ہیں، ٹھوکریں کھاتے ہیں۔ کبھی ایک قدم آگے بڑھاتے ہیں تو بعد میں دو قوم پیچھے چلے جاتےہیں ان کے حالی موالی بھی سمجھ جاتے ہیں کہ بندر کے ہاتھ میں ناریل آگیا ہے اور اندھے کے ہاتھ بیڑ لگ گئی ہے جو سب اپنے اپنے بھاگ کھیلنے میں لگ جاتے ہیں اس معذور حکمران سے ایسے ایسے سو رنگ رچوانے میں جس سے ساری دنیا محظوظ ہوتی ہے۔ مملکت کے بڑے بڑے فیصلی کروائے جاتے ہیں اور اپنی اپنی جھولیاں بھرنے کا سامان پیدا کرتے ہیں، بعد میں اس سے یوٹرن کراکر اس کی بھد اڑواتے ہیں، ایسے حکمران کے اردگرد رہنے والے مسخرے (جنہیں آج کے دور میں وزیر اور مشیر کہا جاتا ہے) خود اپنی اپنی جگہ خود کو حکمران سمجھنے لگتے ہیں اور یہ سب مل کر اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپناراگ الاپنے لگتے ہیں جس سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی اور ایسے میں اگر کوئی دانا عقل کی بات کرتا ہے تو یہ مسخرے اس کی باتوں کو تماشا بنا دیتے ہیں۔کیونکہ جہاں 99 آدمی جھوٹ بول رہے ہوں وہاں ایک کا سچ سب سے بڑا جھوٹ بن جاتا ہے جیسے کے لبنان کے عظیم دانش ور خلیل جبران نے کہا کہ ”دنیا میں جب اتنا جھوٹ بڑھ جائے کہ سچ معلوم ہو تو اپنا سچ کہہ کہ جھوٹ لگے“۔ سو چاروں طرف ایک ہاہاکار ہو رہا ہو، بڑے فیصلوں کی خبر حکمران کو ”میڈیا“ سے ہے۔ عوام دربدر ہو رہی ہے، بچے بھوک سے مر رہے ہوں، ملک لوقانونیت کا شکار ہو، غریب، غربائ، روٹیوں کے لئے محتاج ہوں۔ گرانی سے عوام الناس کی کمر ٹوٹ رہی ہو اور ہر طرف بدنظمی، بد انتظامی کا دور دورہ ہو، ٹی وی کی اسکرین پر سب اپنی اپنی بولیاں بول رہے ہوں اور یہ نہ معلوم ہو سکے کہ کون سچا ہے، کون جھوٹا اور ملک کا حکمران کون ہے اور معاملات سلطنت کس کے اشارے پر چل رہے ہیں تو اس صورت حال ہی کو ”طوائف الملوکیت“ کہتے ہیں۔ آپ ذرا کچھ دیر کو آنکھیں بند کرکے دماغ کو زحمت دیں اور فیصلہ کریں کہ روئے سخن کس کی طرف ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں