Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 407

علیحدگی پسند

دنیا میں مختلف طبعیت مزاج اور کردار کے لوگ پائے جاتے ہیں جو اپنے روئیے، حرکات و سکنات اور عمل سے اپنے اوپر مختلف ناموں کی چھاپ لگالیتے ہیں۔ کچھ لوگ علیحدگی پسند بھی کہلاتے ہیں، ان کو تنہائی پسند بھی کہا جاتا ہے، لیکن ہم جن علیحدگی پسندوں کی بات کررہے ہیں وہ صرف تنہائی پسند نہیں بلکہ آدم بے زار ہوتے ہیں، شور شرابا پسند نہیں کرتے، اپنی ذات میں گم سم تنہا رہنا پسند کرتے ہیں، کچھ علیحدگی پسند لوگ گروپ کی سکل میں ہوتے ہیں، دنیا میں کئی ممالک ایسے بھی ہیں جو دنیا سے کئی معاملات میں علیحدہ رہنا چاہتے ہیں، یہ ممالک کوشش کرتے ہیں کہ ضروریات زندگی کی اشیاءمیں خودکفیل ہوں لیکن بہرحال کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو انہیں باہر کی دنیا سے لینا پڑتی ہیں لیکن تجارتی تعلقات میں بھی ایک حد قائم رکھتے ہیں۔
نئے ترقی یافتہ دور میں دنیا اب بہت چھوٹی ہو گئی ہے اس کے باوجود کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جن کا نام بے شمار لوگوں نے آج تک نہیں سنا ہے ان کا نام باہر کی دنیا میں بھی خبروں کی زینت نہیں بنتا ہے۔ ان میں سے چند ممالک مثلاً مالی، مالٹا، مکاﺅ، لاﺅس وغیرہ ہیں، کچھ ممالک ایسے گروپ بھی ہیں جو علیحدگی کی تحریک چلا رہے ہیں۔ علیحدگی پسند لوگوں کی تحریکیں مذہب، زبان اور ثقافت میں فرق کی بنیاد پر وجود میں آتی ہیں لیکن یہ سب مل کر ایک قوم ہو کر جس ملک میں رہتے ہیں اس سے علیحدگی چاہتے ہیں۔ انڈیا میں جو کہ ہمیشہ پاکستان سے دہشت گردوں کا رونا روتا رہتا ہے۔ 30 ایسے مسلح گروپ ہیں جو اپنے علاقوں کی آزادی اور علیحدگی کی تحریک میں حصہ لے رہے ہیں۔ جن میں سے کئی گروپ دہشت گردوں کی لسٹ میں ہیں۔ ان میں آسام، کشمیر، خالصتان کچھ شمال مشرقی علاقے شامل ہیں۔ جہاں یہ تحریکیں ابھی تک سرگرم عمل ہیں، تڑی پورا، میگھالایا، میزورام، منی پور، آسام اور ناگالینڈ۔ اس وقت چونکہ کشمیر کا مسئلہ کافی شدت اختیار کر گیا ہے لہذا ہم ایک نظر کشمیر پر بھی ڈال لیتے ہیں۔ انڈیا پر انگریزوں کے قبضے کے دوران اور آزادی سے پہلے کشمیر ایک آزاد ریاست تھی جس پر ڈوگرہ کی حکومت تھی یہاں اکثریت میں مسلمان تھے جب کہ دوسرے مذاہب کے لوگ عیسائی، سکھ، بدھسٹ، ہندو مذہب کے لوگ بھی تھے اور آج بھی ہیں۔ کشمیر کا مہاراجہ ہندوستان کی تقسیم کے وقت یہ چاہتا تھا کہ کشمیر آزاد ریاست رہے اور وہاں کے عوام بھی خاموش رہے۔ تقسیم کے بعد گلگت کے کچھ قبائل کشمیر کے علاقے میں داخل ہوئے اور کوشش کی کہ کشمیر پاکستان کا حصہ بن جائے، پاکستانی فوج بھی ان کی مدد کو آگئی۔ ہری سنگھ نے نہرو سے مدد مانگی اور نہرو نے اس شرط پر مدد کی حامی بھری کہ کشمیر کو انڈیا میں شامل کرلیا جائے، اس وقت بھی کشمیری عوام خاموش رہے، ہری سنگھ نے شرط منظور کرلی اور بھارتی فوج کشمیر میں آگئی۔ پاکستانی فوج سے جھڑپ ہوئی، پاکستانی فوج نے کشمیر کا کچھ علاقہ قبضے میں کرلیا اور اسے آزاد کشمیرکا نام دیا۔ باقی کشمیر کے علاقے پر انڈیا نے قبضہ کرلیا۔ کشمیر کے لوگ تقسیم سے پہلے بھی اور تقسیم کے بعد بھی یہ فیصلہ نہ کر سکے کہ ان کو کس کے ساتھ رہنا ہے یا پھر آزاد رہنا ہے۔ اس مسئلے پر کشمیر میں تین گروپ کام کررہے ہیں، ایک وہ جوپاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں، دوسرے وہ جو انڈیا کے حامی ہیں، اور تیسرے گروپ کا نعرہ آزاد کشمیر ہے۔ اگر یہ تینوں کسی ایک بات پر اتفاق کرلیں تو شاید کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے بہرحال یہ بھی علیحدگی پسند لوگوں کی ایک مثال ہے۔
دنیا میں ایک ملک ایسا بھی ہے جہاں کے لوگوں می علیحدگی کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ علیحدہ ہونے کے لئے اور اپنے آپ کو دوسروں سے مختلف یا برتر ثابت کرنے کا کوئی نا کوئی جواز پیدا کرلیتے ہیں۔ بدقسمتی سے میں بھی اسی ملک کا باشندہ ہوں، ہم ان میں سے ہیں جو پاکستانی کہلانے سے پہلے انڈین کہلاتے تھے۔ موجودہ پاکستان میں رہنے والے سب کے سب باشندے ہندوستانی تھے۔ انڈیا میں مسلمانوں کی آمد سے پہلے کئی مذاہب تھے اور ان ہی لوگوں میں سے آگے چل کر لوگ مسلمان ہو گئے اور ایک وقت میں یہ تعداد کروڑوں میں پہنچ گئی۔ آج انڈیا یا پاکستان کے کسی بھی مسلمان سے سوال کیا جائی کہ آپ کے اباﺅ اجداد کا تعلق کہاں سے تھا تو وہ اپنا شجرہ عرب، ایران، افغانستان اور ترکی سے ملائے گا تو ان ہندو، عیسائی، سکھ بدھسٹ لوگوں کی اولادیں کہاں گئیں جو مسلمان ہو گئے تھے بہرحال یہ علیحدہ بات ہے ہمارے ہم وطنوں میں علیحدگی کی بیماری کی وجوہات کیا ہیں اس کے لئے تاریخ کے صفحات کھنگھالنا پڑیں گے۔
ایران افغانستان اور عرب سے جو لوگ ہندوستان آئے تو سب سے پہلے تو ان لوگوں نے اپنے ملک اپنے لوگوں سے علیحدگی اختیار کی اور ہندوستان آگئے پھر جو لوگ ہندوستان کے رہنے والے تھے اور مسلمان ہوئے انہوں نے اپنے خاندانوں اپنے مذہب اور اپنی قوم سے علیحدگی اختیار کی، بعد میں جب ہندوستانپر انگریز قابض ہو گیا تو انگریز سے علیحدگی کی تحریکیں شروع ہو گئیں جب انگریز کے جانے کا وقت ہو گیا تو ہندوﺅں سے علیحدہ ہو کر مسلم مملکت کی جدوجہد شروع ہو گئی۔ سب سے علیحدہ ہو کر اپنا ملک پاکستان بھی بن گیا اب علیحدگی کا کیڑا سر اٹھانے لگا کہ اب کیا کیا جائے۔ پاکستان چونکہ دو حصوں میں تقسیم ہوا تھا چونکہ مشرقی پاکستان زبان اور رہن سہن کا طریقہ مختلف تھا، کمزور اور غریب لوگ تھے، مغربی پاکستان کے لوگوں کی زیادتی کا نشانہ بنے پھر علیحدگی کا نعرہ لگ گیا اور مشرقی پاکستان بھی علیحدہ ہو گیا، اب مغربی پاکستان رہ گیا، آس پاس دیکھا گیا کہ زبان، ثقافت رہن سہن میں کافی فرق پایا جاتا ہے لہذا ہر صوبے میں علیحدگی کا نعرہ شروع ہو گیا۔ قصہ مختصر کہ یہ علیحدگی کی بیماری ہمارے اندر صدیوں سے چلی آرہی ہے۔ علیحدگی کے نشے نے ہمارے ملک میںکئی مسلکوں اور فرقوں کو جنم دیا جن کے علیحدہ علیحدہ غلام بن گئے ہیں اور کوئی بھی ایک دوسرے سے متفق نہیں ہے۔ ایک دوسرے کے برابر بیٹھنا بھی گوارہ نہیں ہے اور اگر کسی وجہ سے بیٹھنا بھی پڑ جائے تو سوال و جواب کچھ اس طرح سے ہوتے ہیں، آپ کا مذہب کیا ہے اگر مسلمان ہیں تو مسلک یا فرقہ کیا ہے، اس کے بعد علاقہ زبان اور ان ہی جوابات میں علیحدہ ہونے کا جواز پیدا ہو جاتا ہے لہذا فوراً ایک دوسرے سے چار پانچ فٹ کا فاصلہ ہو جاتا ہے۔
یہ تو خیر اپنے ملک کی بات تھی، لیکن اس بیماری کو لے کر ہمارے ہم وطن دیار غیر میں بھی یہی کچھ کررہے ہیں اور یہ سب خرافات ملک سے باہر بھی دیکھنے کو مل رہی ہیں جن لوگوں کے بچے یہاںپیدا ہوئے وہ تو زیادہ تر ان خرافات سے دور ہیں کیونکہ ان بچوں کی اکثریت کو پاکستان سےکوئی مطلب نہیں ہے، امریکہ میں ہیں تو امریکن سٹیزن اور برطانیہ میں ہیں تو برٹش سٹیزن، انہیں پاکستان سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ امریکہ میں رہنے والے ہمارے ہم وطن ہر شہر میں مسلکوں میں بٹے ہوئے ہیں، مساجد تک علیحدہ ہیں اسی طرح علاقے اور زبان کی بنیاد پر گروپ بندی ہے۔ ان میں ایسے نام نہاد کمیونٹی لیڈر بھی ہیں جنہوں نے اپنے مفاد کے لئے کمیونٹی کو زبان کی بنیاد پر تقسیم کردیا ہے۔ یہ لوگ اپنا اپنا گروپ بنا کر محب وطن کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔ وطن سے محبت کا اظہار کرنے کے لئے یوم پاکستان مناتے ہیں لیکن چندے پر جب کہ ایک دوسرے سے گروپ کی بنیاد پر نفرت بھی کرتے ہیں۔ یہ کیسی محب وطنی ہے، ان گروپوں میں لڑائی جھگڑے گالم گلوچ پیسوں کا جھگڑا عام ہے۔ ان لوگوں کے یہاں کردار دیکھ کر بے غیرت نا کہنا اپنے احساسات کے ساتھ زیادتی ہوگی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں