۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 657

”فلیش بیک“ ۔ (3)

ناظرین یہ مناظر جو آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں محض ایک 9 سالہ ملک خدادا کے ہیں جو کہ وہ مختلف خطوں پر محیط ہے۔ جن کی نہ ثقافت ایک ہے، نہ زبان، نہ لباس، نہ خوراک، نہ کلچر اور نہ ہی سوچ۔ یہ محض ایک رشتے میں جو کہ بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہے سے جڑے ہوئے ہیں جو مذہب کا ہے اور بقول مولانا ابو الکلام آزاد کہ امام ہند کہلاتے تھے کہ بقول کہ ”جناح“ جس رشتے کی بنیاد پر یہ خطہ چنا ہے وہ کمزور ترین رشتہ ہے جو کہ کچھ ہی عرصے میں ٹوٹ جائے گا اور یہ رشتہ محض 25 سال بعد تڑک کرکے ٹوٹ گیا مگر یہ سب کچھ بہت بعد میں ہونے والا ہے یہ ہمارے اس وقت سے 5 سال پہلے جب بابائے ملت مشرقی پاکستان کے دورے پر تشریف لے گئے تھے اور انہوں نے اپنی مخصوص زبان میں کہا تھا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو اور صرف اردو ہوگی تو میٹرک کے ایک طالب علم نے اٹھ کر کہا تھا کہ ”نہیں بنگالی بھی ہو گی“ تو یہ ملک اس دن ہی دولخت ہو گیا تھا مگر یہ سب بہت بعد میں ہونے والا ہے، ابھی تو آپ موجودہ سین سینریاں دیکھئے تو اب آئیے اس 9 سالہ ”لڑکے“ ملک کی اشرافیہ کا حال ملاحظہ فرمائیے جو اعلیٰ حکام اور بڑے بڑے سرمایہ داروں پر مشتمل ہے یہ ایک الگ ہی طبقہ ہے جس کا عوام ”کالا نعا“ (یعنی چوپاﺅں) سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جنہوں ”جلتی کیوں ہے میری جان ۔ لے کر رہیں کہ پاکستان“ کے حلق شگاف نعرے لگائے تھے اور اب اس کی سزا بھگتنے والے تھے یہ اشرافیہ اپنی چھٹیاں یورپ اور امریکہ میں گزارتے ہیں۔ تو یہی 9 سالہ طبقہ بڑے ہو کر اگر اپنی عیدیں، سالگراہیں اور بچوں کی شادیاں برطانیہ، امریکہ اور دوبئی میں کررہا ہے تو کونسی قیامت آگئی۔ یہ اپنے سرمایہ کو سوئیٹزرلینڈ کے بینکوں میں جمع کراتا ہے (تو آج اگر زرداری شریفے ڈارئیے اور ڈاکو ان بینکوں میں اربوں کھربوں جمع کرارہے ہیں تو کیا قیامت آگئی)۔
ارے ارے ان دنوں میں بھی جب کہ ابھی تو اس ”نوزائیدہ“ کے دودھ کے دانت بھی نہیں ٹوٹے تھے یہ لوگ بات بات پر ایک دوسرے کو غدار اور وطن فروش کے ناموں سے نوازتے تھے اور حب الوطنی کا سارا ٹھیکہ انہوں نے اپنی ننھی ننھی جانوں پر لے رکھا تھا۔ (یہی کام ان کے آنے والے بزرگ ایک نئی ایجاد ٹیلی ویژن اور ایک نئے ڈھول میڈیا پر کرے گے، ابھی تو ابتداءعشق ہے، روتا ہے کیا، آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا) اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ فرزند اسلام یہ مذہب کے ٹھیکدار یہ ملک کے نام نہاد پاسبان خود امریکہ، انگلستان اور کینیڈا میں سکونت اختیار کرنے کے پروگرام بنا رہے ہیں۔ (اور کل تم دیکھنا کہ یہ محض اس ملک کو اس لئے باقی رکھیں گے کہ اس کو اور لوٹ کر ان ملکوں میں جائیدادیں بنائیں۔ ان کے نوکر شاہی اور پارلیمنٹ کے ممبران ان ملکوں کی شہریت حاصل کریں گے ان کے بیوی اور بچے ان ملکوں میں شاہوں کی طرح رہیں گے اور یہ خود ملک کے اعلیٰ عہدوں پر متمکن ہو کر دو ریاستوں کے حلف یافتہ ہونگے مگر یہ نہ اس کے وفادار ہوں گے نہ اس کے جو اپنوں کا نہ ہوا غیر کا کیا ہو گا مگر یہ آنے والے وقت میں دیکھئے گا)
یہ اس بنی اسرائیل کی طرح (Promised Land) یا جنت یا زیافت کے باسی جو خود کو اسلام کا نام لیوا کہتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ”پاکستان کا مطلب کیا؟ اور پھر کلمہ طیبہ دہراتے ہیں یہ ان کا صرف 9 سالہ دور میں ہولناک ترین دور ہے۔ ان ذہین کہلائے جانے والے لوگوں کا وقت ایک بھیانک خلاءمیں برباد ہو رہا ہے ان کے سامنے کوئی منزل نہیں ہے، نہ کوئی راستہ، نہ کوئی مقصد، سب جنگل کے قانون بلکہ اس سے بھی بدتر حالات سے دوچار ہیں۔ ان کے نوجوان ان نو سالوں میں اپنے اہداف سے جو ان کے بزرگوں نے طے کئے تھے، نہ جانے کتنی دور چلے گئے۔ یہ نسل فرسٹریشن کا شکار ہو گئی تھی، ذہنی انتشار اور یہی ان کی زندگی کا سیمبل بن گیا۔ مجموعی طور پر یہ نئے ملک کے باسی ضمیر و میر کی کوئی بات نہیں کرتے اب صرف انہیں روزی کمانی ہے کیونکہ اگر بھوکوں ہی مرنا تھا تو ہندوستان کیوں چھوڑ کر آئے تو بھائی مقصد وقصد تو گیا تیل لینے اب تو یہ ملک محض پیٹ بھرنے کے لئے ہے اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے، سوچو کچھ بھی ہاتھ آئے لے تو ورنہ دوسرا لے جائے گا۔ بابائے قوم نے کہا تھا ارے بھائی رئیس امرہوی کا قطعہ آپ نے نہیں پڑھا۔ کیسا اتحاد، کیسی تنظیم اور کس چیز پر یقین محکم، فرمایا اس مرد دانا نے کہ
مانا جناب قائد اعظم کا تھا قول
لیکن جناب قائد اعظم تو مر گئے
وہ تو مر گئے اور ہمیں کس کے حوالے کر گئے ان گدھوں کے اور چلو اچھا ہی ہوا کہ اچھا ہوا ورنہ
کافر قرار پا کے اتارے نہیں گئے
اچھا ہوا تم مر گئے مارے نہیں گئے
ورنہ تمہارے نام بھی دیواروں پر ”کافر، کافر اور ”واجب القت“ کے ساتھ لکھا جاتا ویسے آپ کو تو ہندوستان میں ہی کافر قرار دے کر بڑے بڑے پوسٹر لگا دیئے گئے تھے کہ ”جناح کافر ہونے کی ساری شرائط پوری کرتا ہے“ مگر بابا جی وہی ابن الوقت کفار مکہ کی طرح بہتی گنگا میں ڈبکیاں کھاتے تیرتے ملک میں آگئے اور کافر بنانے کی فیکٹریاں قائم کرلیں جو 70 سال کے بعد اپنے کافر بنائیں گی جو اس ملک کی آبادی سے بھی دگنے ہونگے۔ ارے بھائی کہاں مستقبل میں پہنچ گئے آج کی بات کرتے ہیں، آج کے سین دکھاتے ہیں۔ تو اس خداداد ملک میں ”اسلام“ کے لفظ کی جو درگت بنی ہے اللہ الامان الحفیظ۔ ذرا ذرا سی بات میں اسلام خطرے میں آجاتا ہے، دنیا کے ہر مسئلے کی تان اسلام پر ٹوٹتی ہے۔ ساری دنیا کے اسلام کا ٹھیکہ اس وقت ان لوگوں نے طے رکھا ہے ہر چیز پر تنگ نظری کا غلاف چڑھا ہوا ہے۔ موسیقی، آرٹ، تہذیب، علم و ادب کو اس نام نہاد مذہبی ٹھیکیداروں کی نظروں سے دیکھا جارہا ہے جسے اپنے ہجرے اور ان کہنہ روایات کے علاوہ جدید علم و فکر کی کچھ خبر نہیں ہے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ (ابھی کہا ہے آنے والے وقتوں میں یہ دنیا کے گول ہونے اور نظام شمسی سے بھی انکار کردیں گے۔یہ کہیں گے کہ دنیا ایک مچھلی کی پیٹ پر ٹکی ہوئی ہے) وہ مذہب جو ان گنت ندی نالوں کو اپنے دھارے میں لے کر اور سمیٹ کر ایک عظیم آبشارکی صورت میں رواں ہوا تھا اب وہ سمٹ کر ایک بڑے نالے میں تبدیل کیا جارہا ہے جو ایک وسیع بھیڑ میں بہہ رہا ہے جس میں چاروں طرف بند باندھے جارہے ہیں، اس میں جو تعفن پیدا ہو رہا ہے اس کے باعث ساری دنیا اپنی ناکوں کو بند کئے ہوئے اس عبرت کدے کو دیکھ رہی ہے جس نے اپنے ہی لوگوں کے لئے زمین تنگ کردی ہے۔ یہ اسلام کے نام لیوا جو کہ ”پدرم سلطان بود“ کا نعرہ لگا کر محض عہد رفتہ کو یاد کرکے احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں۔ یہ اسپین کی حکومت، عثمانیوں کی یورپ پر حکمرانی، ایک ہزار سال ہندوستان پر حکومت کے نشے میں مست ہیں انہیں توفیق نہیں ہوتی کہ ”عرب حکمائ“ ایرانی شعرائ، ہندوستانی صوفیائے کرام کی وسیع قلبی کا چرچا کریں۔ علیؑ اور حسینؑ کے فلسفے سے انہیں کوئی غرض نہیں یہ اسلام کو ایک نہایت جارحانہ مذہب اور طرز زندگی بنا کر پیش کررہے ہیں۔
یہ طرز فکر یہ منفی سوچ جس کی ابتداءہے، یہی آگے چل کر ایسی خوفناک صورت حال اختیار کرنے والی ہے کہ ساری دنیا میں یہ اسلام کے نادان دوست خود کو مسلمان کہتے ہوئے شرمائیں گے ان کی اس سوچ کا سہارا لے کر اغیار ان کی جوتی اور انہی کا سر کے ہونے پر عمل پیرا ہو کر کبھی ”القاعدہ“ تخلیق کریں گے، کبھی یہ ”داعش“ بنا کر ان کی آبادیوں کو تہس نہس کریں گے، کہیں یہ مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑوا کر ایک دوسرے کو کافر قرار دے کر اپنے مقاصد حاصل کرائیں گے۔ یہ کبھی عراق کو تہس نہس کریں گے، کبھی شام میں مسلمانوں کو مسلمانوں سے مروائیں گے۔ کبھی یہ لیبیا کو تباہ و برباد کراکر خود کو فاتح کہلوائیں گے تو کبھی خادم حرمین شریفین جو ساری دنیا کے مسلمانوں کے لئے محترم کہے جاتے ہیں سے یمنیوں کو لاکھوں کی تعداد میں مروائیں گے۔ تو کبھی ایران کو شیعہ ملک قرار دے کر سنی سعودی عرب کے ہاتھوں تباہ کرنے کی سازش کریں گے اور ان سارے معاملات میں ملک خداداد ”اسلام کا قلعہ“ پاکستان بھی گلے گلے شریک ہو گا اس کی فوج اس کے عوام دوسروں کے مقاصد کے حصول کے لئے خود کو فروخت کریں گے اس اسلام کے ”ناقابل تسخیر“ قلعہ کے مذہبی ٹھیکیدار دولت کے ہاتھوں بک کر ملک میں اقلیتوں پر عرصہ حیات تنگ کردے گی۔ یہ ان کو مجبور کرے گی کہ وہ اپنے مذہب کو تبدیل کریں ورنہ قتل ہو جائیں۔ یہ اسلام کی وہ تصویر پیش کرے گی جو اسلام کے دشمن اس سے ظاہر کرانا چاہتے ہیں۔ ناظرین جو تم 9 سالہ دور میں دیکھ رہے ہو وہی دل دہلانے والا ہے، سوچو کہ ستر سال کے بعد جب یہ زہریلے بیج کے درخت تناور بن جائیں گے تو کیا ہوگا؟
اچھا وہی رہا جو جہاں سے گزر
(ختم شد)
(محترمہ قرض العین حیدر کی کتاب ”آگ کے دریا“ سے اکتساب)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں