۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 537

قطعی غیر سیاسی کہانی: مشورہ

کسی جگہ ایک بادشاہ تھا (اگلے زمانوں میں کہانیاں اسی طرح شروع کی جاتی تھیں کہ کسی جگہ ایک بادشاہ تھا) ہمارا تمہارا خدا بادشاہ، مگر اب جمہوریت کا دور ہے لہذا یہ جملہ ذرا بے تکا لگتا ہے لہذا جس کا جو بھی بادشاہ ہے اسے اپنے تصور میں لے آئیں تو اس سے افاقہ ہوگا)
ہاں تو ایک بادشاہ تھا اور پھر لازم ہے کہ اس کا دربار بھی ہوگا، اور درباری بھی ہوں گے، پھر اس کے لاتعداد چمچے کرچھی بھی ہوں گے۔ اور ہاں کچھ مشیر بھی ہوں گے، یہ تو آج کل بھی ہوتے ہیں لہذا آپ کے ذہن پر بوجھ نہ پڑے، آپ موجودہ سیٹ اپ کو بھی تصور کرلیں کہ یہ سب کیسے ہوں گے تو جناب والا بادشاہ جس کے راج میں راوی چین ہی چین لکھتا ہے (ویسے آج کل یہ چین نہیں ہے، چیں چیں ہے جو عوام کی نکلتی ہے) اور شہر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پیتے تھے (عجیب سی بات ہے کہ درندہ اور معصوم سا جانور دونوں ایک ہی جگہ قطار لگا کر پانی پیتے تھے۔ آج کل تو پانی میسر ہی نہیں ہے تو جانوروں کو کہاں ملے گا، انسان کو مہیا نہیں ہے) سو یہ بات تو بادشاہ کے اکاﺅنٹ میں جارہی ہے کہ ایسے زبردست ایڈمنسٹریشن تھا کہ کوئی کسی کو ٹیڑھی آنکھ سے نہیں دیکھتا تھا تو ملک میں امن و امان تھا، ملک پر قرضے نہیں تھے کیونکہ حکمران لٹیرے نہیں تھے، ملک کا مال ڈکار کر دوسرے ملکوں میں رکھواتے کہ جب برے دن آئیں گے تو پتلی گلی سے نکل کر عیش و عشرت کریں گے اور نہ ہی یہ رواج تھے کہ اپنے شہزادوں کو ولدیت بدلوا کر ولدیت روانہ کردیں بلکہ اپنے رشتے داروں کو ان کی ڈھیریاں لگوا کر پارسل کردیں کہ ہم مال بھیجتے رہیں گے تم اسے اچھی طرح سے مزید مال بنانے کے لئے جائیدادیں خریدتے رہنا، محل بنانا بلکہ ”سرے“ سے اس سرے تک بڑے بڑے قلعہ خرید کر ان میں عیش کرنا تاکہ جب ہم آئیں اس جنت میں دن گزاریں۔ ہاں تو ملک خوشحال تھا، لوگ باگ بادشاہ کے جان و مال کو دعائیں دیتے تھے (جب کہ اب تو عوام یعنی چوپاﺅں کو سوائے حکمرانوں کو گالیاں دینے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہے اور ان کا کام ہی حکمرانوں کو تبدیل کرکے نئے نئے تجربات کرنا ہے) سو ایسے پرامن حالات میں ملک ناہنجار کے دل میں نہ جانے کیا آئی کہ اپنے چند جوتشیوں جنہیں آج کل ماہر علم نجوم کہا جاتا ہے یعنی آنے والے حالات کا تجزیہ کرنا اور اسے مشتہر کرکے پرامن ماحول کو خراب کرنا، لوگوں کا خوفزدہ کرنا چاہتے ہیں مگر آج کے حکمران ایسے لوگوں کو شرپسند کہتے ہیں تو ان مستقبل کے حال بنانے والوں نے ایک وفد کی صور ت میں بادشاہ سے ملاقات کی اور اس سے جان کی امان مانگی یہ اس زمانے کا فیشن تھا کہ لوگ بات کرنے سے قبل حکمرانوں سے جان کی امان مانگتے تھے کیونکہ اگر بات بادشاہ یا حکمران کے مزاج کو ناگوار گزرتی تھی تو کھٹ سے کہنے والے کی گردن پھٹے کی طرح اُڑا دی جاتی تھی، آج کی طرح نہیں کہ اگر بات حاکم وقت کو ناگوار گزرے تو کورٹ، کچہری، عدالتیں، جج، وکیل، گواہ، استغاثہ، ایف آئی آر، نیب، پولیس اور پیشیوں پر پیشیاں کرکے کہنے والے کی ایسی تیسی کردی جائے۔ جب تک کہ حاکم مکمل سے یا کہنے والا جان جان آفرین نہ سپرد کرکے سدھار جائے۔ سو بادشاہ نے کمال مہربانی کے ان جوتشیوں کو جان کی امان دیدی اور جب ان کی جانوں میں جان آئی تو انہوں نے بادشاہ سے تخلیہ میں گفتگو کرنے کی اجازت مانگی اور بادشاہ نے اپنے خاص درباریوں کے ساتھ ان سے ملاقات کی۔ جس پر ان دانشمندوں نے ادھر ادھر دیکھ کر (ابھارت اسمارٹ فونز، buggs، خفیہ آلات، سماعت اور مائیکروفونز اور کیمرے ایجاد نہیں ہوئے تھے) محض دیواروں کے کان ہوتے تھے، کہا کہ حضور آئندہ چند دنوں میں ملک میں ایک زبردست بارش ہو گی ایسی جل تھل کے سارے نال نلیاں (ابھی ڈیمز بنانے کا فیشن نہیں ہوا تھا اور نہ ہی ان کے بننے پر جانیں دینے کا رواج اور نہ ہی اسے بنانے کے لئے لوگوں سے چندہ لینا کا رواج وجود نہیں آیا تھا) بھر جائیں گے، ریگستان گل و گلزار ہو جائیں گے، نشینی علاقہ ڈوب جائیں گے، گویا پورا ملک پانی پانی ہو جائے گا (پانی سے شرم سے نہیں جیسا کہ آج کل ہوتا ہے، دو منٹ کے لئے ملک بھر پھر شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہے اس کے بعد پھر بے شرم ہو جاتے ہیں) جوتشیوں نے کہا کہ حضور، بارش باعث رحمت ہوتی ہے مگر حضور یہ اس ملک کے لئے باعث زحمت ہوگی (اہل کراچی اس لفظ سے بخوبی واقف ہیں جہاں سڑکیں، نالے اور کھلے ہوئے گٹر اس زحمت کی زندہ مثال بن جاتے ہیں، اس میں بجلی کا کوئی ذکر نہیں ہے)
بادشاہ نے کڑک کر پوچھا ”وہ کیسے“ جس پر وہ دانشمند بولے، حضور یہ ایسا پانی ہو گا جو اسے پئے گا وہ پاگل ہو جائے گا، (آج کل بغیر پانی کے لوگ پاگل ہو گئے ہیں( بادشاہ نے کہا کہ ہر آدمی؟ وہ بولے جی، ہر آدمی، بادشاہ پھر کڑک کر بولا، گویا ہم بھی؟ وہ بولے کیا آپ ادمی ہیں؟ بادشاہ مزید کڑک کر گویا ہوا ”ہاں آدمی ہیں“ جس پر وہ بولے کہ تو پھر آپ بھی۔
اب تو بادشاہ کی سیٹی گم۔ اس نے اپنے وزیروں اور مشیروں کی طرف دیکھا کہ اب کیا کریں، ان میں سب سے زیادہ دانشمند نے کہا کہ حضور ہم ایسا کرتے ہیں کہ بارش سے قبل ہم قلعہ میں بڑے بڑے تالاب بنوا کر اس میں پانی کا ذخیرہ کرلیں اور ہونے والی بارش کے پاگل کرنے والے پانی سے محفوظ ہو جائیں۔ بادشاہ نے اسے انعام و اکرام سے مالا مال کیا اور اپنے لئے پانی کے ذخائر تعمیر کرائے (ہائے پھر کراچی والے تمہارا K-4 کا پانی کا منصوبہ ملک ریاض کو تفویض کردیا گیا ہے تو پھر پانی پئے بغیر دیوانے کے دیوانے) اور پھر وہی ہوا جو کہا گیا، بارش ہوئی، اور ایسا برسا ٹوٹ کے بادل کہ بقول شاعر
ڈوب گیا میخانہ بھی
اور پھر جس جس نے وہ پانی پیا وہ دیوار نہ ہوگیا گویا پانی نہ ہوا شراب ہو گئی کہ پینے سے دیوانہ بنا دے، پوری پوری کی رعایا پاگلوں میں تبدیل ہوگئی، (مثال کے طور پر اپنے حالات پر غور فرمائیں) بادشاہ اور اس کے وزیر باتدبیر اور مشیران نے اس پانی سے استفادہ کیا جو انہوں نے قبل از بارش ذخیرہ کیا تھا (ہائے پھر اپنا ملک ہمارے حکمرانوں، وزیروں، مشیروں اور شاہ کے عزیز رشتہ داروں، بڑے بڑے بیوروکریٹس، میڈیا کے کنگ نے بھی ملک میں دولت کی خشک سالی سے قبل اپنے اپنے ذخائر محفوظ کرلئے ہیں تاکہ رعایا اور ملک جب اپنا ذہنی توازن کھو دے تو وہ محفوظ و مامون رہیں)۔ ادھر بادشاہ سلامت اور ان کے حالی موالی جب بھی رعایا کے سامنے آتے تو وہ سب دیوانے اپنے سے مختلف چند افراد کو دیکھ کر پاگل پاگل کے نعرے لگاتے۔ کوئی انہیں حکمران تسلیم نہیں کرتا، کوئی ان کی تعظیم نہ کرتا، کوئی ان کا حکم نہیں مانتا، ہر شخص انہیں دیکھ کر پاگل پاگل کے نعرے لگاتا۔ انہی دیوانوں کے نمائندے کانفرنسیں کرتے، جلوس نکالتے، قراردادیں پاس کرتے اور سب متفقہ طور پر حکمرانوں کو پاگل اور دیوانے قرار دیتے، یہ صورت حال دیکھ کر بادشاہ سخت پریشان ہوا، اور ایک دن اس نے اپنے وزیروں اور مشیروں کو جمع کیا اور ان سے کہا کہ ملک کی صورت حال خراب ہو گئی، اس میں ہم مٹھی بھر لوگ ہی باہوش و حواس ہیں مگر ہمارے عوام جو دیوانگی میں مبتلا ہیں، ہمیں دیوانہ اور مخبوط الحواس قرار دے رہے ہیں، اب ہم کیا کریں؟ ان سب میں جو سب سے زیادہ فرزاند تھا اس نے کہا کہ حضور اس صورت حال میں اکثریت چونکہ دیوانگی کا شکار ہے، یہ عقل و خرد سے عاری ہو چکی ہے اور اگر ہمیں اپنی حکمرانی قائم رکھنی ہے تو میرا مشورہ ہے کہ ہم سب کو بھی وہی پانی پی لینا چاہئے جو بارش کا ہے اور جو ان اکثریت نے پیا ہے، ایک یہی صورت ہے حکمرانی قائم رکھنے کی۔ (جمہوریت کا حسن)، یہ علم نہیں ہے کہ بادشاہ نے یہ مشورہ قبول کیا یا نہیں؟ وہ حکمران رہا یا نہیں؟ آپ کا کیا خیال ہے، پی لے وہ پانی؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں