سیاسی رسم 451

ملک شام کی مایوس شام

ملک شام میں دس سال قبل صدر الاسد کے خلاف ہونے والے احتجاج نے ایک خوفناک خانہ جنگی کی شکل اختیار کرلی۔ جس کے بعد ملک شام بہت سے صورتحال سے دوچار ہوا۔۔ اب تک اس میں ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ لوگ مارے گ?ے ہیں۔۔ اور اس سے متعددشہر اور قصبے تباہ برباد ہوگ?ے ہیں۔۔ ملک شام میں جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی بہت سے شامیوں کو صدر اسد کی حکومت سے بےروزگار ،بدعنوانی اور سیاسی پابندیوں کی شکایتیں تھی۔ 2000میں بشارالاسد اپنے والدحافظ الاسد کی جگہ اقتدار میں آئے تھے۔ مارچ 2011میں جنوبی شہر دیرا میں پڑوسی عرب ملکوں کے عرب سپرنگ سے متاثر ہوکر جمہوریت کے حق میں ہونے والے ایک مظاہرے میں تشدد پھوٹ پڑا۔۔ حکومت نے اسے کچلنے کے لیے مہلک طاقت کا استعمال کیا۔۔جس کے بعد ملک بھر میں احتجاج شروع کردیا۔۔ اس احتجاج کا مقصد صدر اسد سے استعفے کا مطالبہ تھا۔۔ آہستہ آہستہ تشدد پھلتا چلاگیا۔ اور ملک خانہ جنگی کی شکل اختیار کرلی۔ جس میں مارچ 2018 میں شام کے ایک ذرائع نے رپورٹ پیش کی۔ جس میں شام میں 353,9000 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی۔ جس میں زیادہ تر ہلاکت عام شہری کی تھی۔۔ جس کی تعداد 106,000رپورٹ ہوئی تھی۔
اس تعداد میں وہ 56900افراد شامل نہیں تھے۔۔ جو یا تو غائب ہیں یا پھر ان کے بارے میں خیال ہے کہ وہ مر گئے ہیں۔
شام میں جنگ بشارالاسد اور ان کے مخالفین کے درمیان محدود نہیں رہی تھی۔ اس کے علاوہ متعدد تنظیمیں اور متعدد ملک ملوث تھی۔۔ جن میں ہر ایک کا اپنا اپنا ایجنڈا شامل تھا۔۔ شام میں ایک طرف مذہبی جنگ شروع ہوگئی ہے جس میں سنی اکثریت صدر اسد کی علوی شیعہ اقلیت سے نبردآزماہے۔ دوسرے جانب ملک کے اندر سے دولت اسلامیہ اور القاعدہ جیسی شدت پسند تنظیموں موجود ہیں۔
شام میں رہنے والے کرد سرکاری فوج سے تو نہیں لڑ رہے لیکن اپنے لیے الگ ملک چاہتے ہیں۔۔ ملک شام کی معیشت ان تمام تر صورتحال تباہ برباد ہوگئی ہے۔ بنیادی ڈھانچہ تباہی سے دوچار ہوا گیا ہے۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق 15 مارچ 2020تک شام میں جاری خانہ جنگی کے نتیجے میں تین لاکھ 84 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔۔ ان میں ایک لاکھ 16 ہزار عام شہری شامل ہیں۔ شام میں خانہ جنگی کے دوران 22ہزار بچے اور 13 ہزار خواتین بھی ہلاک ہوئیں۔ اس کی طرح 2018 میں تعلیمی اداروں اور صحت کے مراکز پر 262حملے ہوئے۔ جو اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے۔۔ شام کے لیے یونیسف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہینریٹا فورے کے مطابق بارودی سرنگوں کے پھٹنے سے گزشتہ برس 434بچے ہلاک اور شدید زخمی ہوئے۔ شمال مغربی شام میں تقریبا 56 بچے ہلاک ہوچکے ہیں۔ دوسری طرف شام کے شمال مشرق میں واقع الہول کیمپ میں 65000 لوگ موجود ہیں۔
جن میں 240 لاواث بچے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 26لاکھ شامی ہمسایہ ممالک میں پناہ گزین ہیں۔ جو اتنی بڑی آبادی کو رہائش تعلیم صحت اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے سے قاصرہیں۔۔ لہذا چائلڈ لیبر جنسی استحصال اغوا اور نوعمری میں شادی جیسے واقعات میں بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے۔
یونیسیف 1989میں اعلامیہ کا مقصد یہ تھا۔ کہ بچوں کے مفادات پر کسی بھی صورتحال میں سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔ بدقسمتی سے آج ان قوانین اور اقدار کو مضبوط کرنے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ شام کی جنگ کا ہر فریق بچوں کے حقوق کی سنگین پامالیوں کا مرتکب ہوا ہے۔ درحقیقت یہ جنگ بچوں کے خلاف لڑی گئی ہے۔ ان آٹھ برسوں کے دوران ہر لمحہ بچے کے حق تحفظ کو پامال کیاگیا ہے۔۔ کچھ اس جنگ فریق ہیں۔کچھ بلواسط طور پر کسی فریق کو مدد اور حمایت فراہم کر رہے ہیں۔۔اور کچھ دود کھڑے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔تو شام کے بچوں کے مجرم ہم سب ان قددوں اصولوں اور قوانین کی پامالیوں کے مرتکب ہوئے ہیں۔ جن پر غیر مشروط عمل درآمد معاشروں حکومتوں ریاستوں اور عالمی برادری پر لازم ہے۔ ملک شام کی ہر شام اس میں رہنے والے عام شہری کے لیے مایوسی کی شام ہے۔ جس میں بہت سے خاندان ایک طوفان سے گزرہے ہیں۔۔ ان لوگوں کی زندگی روز ایک قیامت دیکھ رہی ہے۔ اللہ پاک ملک شام کے لوگوں کی غیبی مدد عطا فرمائے۔ آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں