۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 566

مل گئے پاسباں کعبے کو صنم خانے سے

مسلمانوں کو نوید ہو کہ اب ان کے مقدس ترین مقامات مکہ اور مدینہ کی حفاظت کی ”عظیم ترین“ ذمہ داری امریکہ کے صدر ٹرمپ نے اپنے ذمہ لے لی ہے۔ اب اربوں مسلمانوں کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ان کے ان پاکیزہ مقامات کی طرف جہاں کسی غیر مسلم کا گزر نہیں ہو سکتا تھا (یاد رہے کہ ہلٹن ہوٹلز کی وارث پیرس ہلٹن نے کہ موصولہ ہالی ووڈ کی نامی گرامی اداکارہ بھی ہیں نے اپنے مکہ میں قائم کئے جانے والوں ہوٹلوں کے معاہدے پر مکہ میں دستخط کئے تھے) اب کسی قسم کا خطرہ نہیں ہے کیونکہ اب امریکی فوج نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری سنبھال لی ہے۔ سعودی حکام جو اپنے ملک کو اب جدید ترین ملک بنانے میں ہمہ تن مصروف ہیں جہاں اب نائٹ کلبس، سینما، تھیٹر اور پاپ سنگر کے اجتماعات دھڑلے سے ہونے لگے ہیں جہاں اب خواتین کو عباﺅں کے جنجال سے آزاد کردیا گیا ہے اور انہیں مغربی ممالک کی طرح سے تمام حقوق دے دیئے گئے ہیں۔ وہاں اب چونکہ سعودیوں کو ان کاموں سے فرصت نہیں ملی کہ لہذا پہلے تو 53 اسلامی (نام نہاد) ملکوں کی ایک فوج بنا کر جس کی سربراہی کا سہرا فرزند پاکستان راحیل شریف کے سر بندھا ہے اور یہ مسلمانوں کی فوج یمن کے ”کفار“ کا قلع قمع کرنے میں ہم تن مصروف ہے تو ادھر شامی خاندان کے اقتدار کو کسی کی نظر نہ لگے تو انہوں نے مناسب سمجھا ہے کہ مسلمانوں پر اعتبار کرنے کے بجائے (کہ خود ان سعودیوں نے اس سے قبل انگریزوں سے سازباز کرکے عرب ، شریف مکہ اور عبدالوہاب کے گٹھ جوڑ سے ترکی خلافت کا خاتمہ کردیا تھا) لہذا اب سعودی اپنے ہی تجربے کو دوبارہ دھرانے کے بجائے، مسلمانوں پر بھروسہ کرنے کے بجائے امریکیوں کے زیرسایہ رہنے پر زیادہ ایمان رکھتے ہیں۔ لہذا ایران کے نام لے کر انہوں نے بظاہر 1500 امریکی فوجیوں کو اپنے خرچے پر سعودی عرب کی حفاظت کا ٹھیکہ دیدیا ہے۔ امریکی جو ”اللہ دے اور بندہ لے“ کے حسبا سے دیدہ و دل فرش راہ یہ کہتے ہوئے کہ ”امریکی مفادات کو“ درپیش قابل یقین خطرات کے پیش نظر امریکی افواج کو سعودی عرب میں تعینات کیا جارہا ہے۔ بظاہر امریکیوں کے مطابق یہ اقدام خلیج میں ایران کے ساتھ کشیدگی میں اضافے کے دوران بحری راستوں کی حفاظت کے لئے اٹھایا جارہا ہے اس سے قبل یہ امریکی مالدار سعودی عرب کو کبھی عراق کا ہوا دکھا کر، کبھی کویت کی جنگ کے دوران اس کی حفاظت کے نام پر اور اب شام اور یمن کے خطرات دکھا کر اس کا مال کھاتے رہے ہیں اور کھا رہے ہیں۔ امریکی دونوں طرف سے ان احمقوں کو لوٹ رہے ہیں۔ اپنا اسلحہ بیچ رہے ہیں اور جو اس اسلحہ کو استعمال کریں گے ان کا سارا خرچ بھی انہی سے وصول کریں گے گویا سعودی پیاز بھی کھا رہے ہیں اور جوٹے بھی۔
ادھر سعودی مجہول بادشاہ شاہ سلیمان نے جو اپنے بیٹے ولی عہد سلمان کے ہاتھوں موم کی ناک بنا ہوا ہے نے علاقائی سیکیورٹی اور استحکام کو مضبوط کرنے کے لئے امریکی افواج کی تعیناتی کی ”اجازت“ دیدی ہے۔ 2003ءکے بعد ایک مرتبہ پھر جب کہ عراقی جنگ جاری تھی کے بعد امریکی افواج کی سعودی عرب سے روانگی کے بعد اب یہ پہلا موقع ہو گا کہ سعودی عرب امریکی فوج کی ”میزبانی“ کرے گا اور اس کا مال کھائے گا۔ امریکی بالکل اس عرب کے اونٹ کی طرح ہیں جس کو صرف خیمے میں سر گھسانے کی اجازت دی گئی تھی مگر اب اس نے بعد میں پورے خیمے پر قبضہ کرکے عرب کو باہر نکال کر کھڑا کردیا اب وہی ڈرامہ ہونے جارہا ہے۔ سعودی اب صرف ”گھر بار تیرا مگر کوٹھری کوٹھے“ سے ہاتھ نہ لگانا کے مصداق امریکی افواج کی خاطر داری میں لگے رہے ہیں کہ ان خاطر مدارت پر اربوں ڈالر خرچ کریں گے۔ یہ امریکی فوج دراصل شاہ سلمان کی ذاتی حفاظت پر مامور ہوں گے۔ جن کی نگرانی میں سعودی ولی عہد نے فوجی اڈے پر فضائی دفاع کے لئے پیٹریاٹ میزائل تعینات کئے جائیں گے مگر اسے نام دیا جارہا ہے کہ یہ سب کچھ امریکی دفاع اور اس کے تحفظ کے لئے کیا جارہا ہے مگر سعودی خرچے پر۔
امریکہ ایران کے ساتھ کئے گئے ایک بین الاقوامی معاہدے سے منکر ہو کر اور اسے منسوخ کرکے اب ایران کے خلاف فوجی کارروائی کا جواز پیدا کررہا ہے اور اس سلسلے میں ”شیعہ ایران“ کے خلاف سنی سعودیوں کو استعمال کررہا ہے۔ یہ معاہدہ جس کے دوسرے فریق یورپی ممالک، روس اور چین کہہ رہے ہیں کہ امریکہ نے یہ معاہدہ توڑ کر سراسر غیر قانونی اقدام کیا ہے مگر ایران کے خلاف امریکہ کی اقتصادی پابندیوں کے خلاف یہ ممالک بھی کچھ کہنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس سے قبل سعودی عرب نے مدتوں پہلے جب ”مسلمانوں“ کی فوج بنائی تھی تو سعودی عرب نے پاکستانی فوج کو اس میں شامل ہونے کے لئے کہا تھا اس کی سب سے پہلی شرط یہ تھی کہ جو فوج سعودی عرب بھیجی جائے اس میں صرف اور صرف سنی العقیدہ افراد ہونے چاہئیں۔ ان میں سپاہی اور افسران کے عقیدہ سنی کے علاوہ اور کچھ نہ ہو۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان افراد کو یمن کے حوثیوں کے خلاف استعمال کرنا تھا جس کے سربراہ پاکستانی جنرل راحیل شریف ”سنی“ ہیں۔ لاکھ پاکستان یہ کہتا رہا کہ پاکستانی فوج یمن کے خلاف استعمال نہیں ہوں گی۔ مگر پاکستانیوں کے لئے سنی ہونے کی شرط کی وجہ کیا تھی؟ پاکستانی فوج جو 4-3 سال کے عرصہ کے لئے سعودی عرب میں تعینات کی گئی تھی اس کا کیا مقصد تھا۔ اور اب شیعہ ایران کے خلاف جو جنگ مندلا رہی ہے اس میں اگر سعودی عرب اپنے آقاﺅں امریکہ کے ساتھ اگر شرکت کریں گے تو لا محالہ یہی سنی فوج شیعہ ایران کے خلاف بھی نبردآزما ہو گی اس طرح سعودی عرب ایک مرتبہ پھر امریکہ کے ساتھ مل کر اسلامی ملک ایران کے خلاف وہی تاریخ دھرائے گا جو کہ ترکی کی خلافت ختم کرنے کے لئے انگریزوں کے ساتھ مل کر کی تھی جس کے باعث پورے عرب کا نقشہ تبدیل ہو گیا اور مسلمانوں کے اتحاد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ یہی نہیں بلکہ پاکستانی فوج جس میں 70 فیصد سنی العقیدہ افراد ہیں اس تفریق کے باعث کیا ان میں سنی اور شیعہ کا تفرقہ پیدا نہیں ہوگا اور کیا اس طرح پاکستان کی مضبوط ترین فوج کو جو اغیار کی آنکھوں میں ہمیشہ کھٹکتی رہی ہے، مذہبی اور فرقہ واریت کے ذریعہ تقسیم نہیں کردیا جائے گا۔ اب سعودی عرب کو پوری طرح امریکہ کی فوج کے حوالے کرنے کے بعد کیا پاکستانی فوج اس بات سے انکار کرسکے گی کہ وہ ایران کے خلاف اس کے ساتھ نہ دے۔ اس طرح مسلمانوں کو مسلمانوں کے ساتھ لڑوا کر امریکہ اور اسرائیل اپنا مقصد حاصل نہ کریں گے جو کہ ہنری کسنجر کے مطابق پورا مشرق وسطیٰ ایک دن اسرائیل کے زیرنگیں ہوگا اور اب محسوس ہورہا ہے کہ کسنجر کا خواب پورا ہونے جارہا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں