۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 181

نائیکہ بولی!

اردو کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے ایک جگہ لکھا کہ وہ شدید گرمی میں ہیرامنڈی لاہور میں ایک گھر میں گیا جہاں کی نائیکہ 2 ایئرکنڈیشن چلا کر اپنے اوپر رضائی اوڑھے سردی سے کپکپا رہی تھی۔ میں نے کہا کہ میڈم دو اے سی چل رہے ہیں، آپ کو سردی لگ رہی ہے، آپ ایک بند کردیں تاکہ آپ کا بل کم آئے تو مسکرا کر بولی کہ ”اساں کیڑا بل اپنی جیب وچوں دینا اے“، منٹو کہتے ہیں کہ کافی سال گزر گئے اور مجھے گوجرانوالہ کے اسسٹنٹ کمشنر کے پاس کسی کام کے لئے جانا پڑ گیا۔ شدید گرمی میں بھی جناب والا کوٹ پتلون پہنے بیٹھے تھے اور دو ونڈو ایئرکنڈیسنر پورے آب و تاب سے چل رہے تھے اور صاحب کو بھی سردی محسوس ہو رہی تھی، میں نے کہا کہ جناب ایک اے سی بند کردیں تو صاحب بہادر نے فرمایا ”اساں کیڑا اے بل اپنی جیب وچوں دینا اے“۔ منٹو کہتے ہیں کہ سن کر میں نے جانا کہ تمام ادارے اس ہی نائیکہ والی سوچ رکھتے ہیں۔
ادھر قائد اعظم محمد علی جناح کی یہ عادت تھی کہ کمرے سے نکلتے وقت بجلی کے سارے بٹن بند کردیا کرتے تھے، اپنے گھر میں ہوں یا میرے یہاں ہوں (ابوالحسن اصفہانی) کی میزبان کے گھر میں، ہر جگہ رکنا یہی معمول ہوتا اور جب ان سے پوچھا جاتا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں تو وہ کہا کرتے ہمیں ایک وولٹ بھی ضائع نہیں کرنا چاہئے، میں (ابو الحسن اصفہانی) ان سے آخری بار 31 اگست 1947 کو گورنر جنرل ہاﺅس میں ملا تھا، ہم کمرے سے نکلے تو وہ مجھے سیڑھیوں تک چھوڑنے آئے اور کمرے سے نکلتے وقت انہوں نے حسب عادت خود ہی تمام سوئچ آف کردیئے۔ میں نے ان سے کہا جناب آپ گورنر جنرل ہیں اور یہ سرکاری رہائش گاہ ہے، اس میں روشنیاں جلتی رہنی چاہئیں، قائد نے جواب دیا کہ یہ سرکاری قیام گاہ ہے، اسی لئے تو میں اور بھی محتاط ہوں، یہ میرا اور تمہارا پیسہ نہیں ہے، یہ سرکاری خزانے کا پیسہ ہے، اور میں اس پیسے کا امین ہوں، اپنے گھر میں تو مجھے اس بات کا پورا اختیار تھا کہ اپنے گھر کی بتیاں ساری رات جلائے رکھوں، لیکن یہاں میری حیثیت مختلف ہے، تم نیچے اتر جاﺅ تو یہ بٹن بھی بند کردوں گا۔
مرزا ابو الحسن اصفہانی ہندوستان کے بہت بڑے صنعت کار اور چائے کے باغات کے مالک تھے، تقسیم کے بعد وہ امریکہ میں پاکستان کے پہلے سفیر رہے۔ لوگوں یہ جان کے حریت ہو گی کہ پاکستان چین کی پہلی کھڑی تھا۔ چین کے لوگ پاکستان کے ذریعے دنیا دیکھتے تھے، پی آئی اے پہلی بین الاقوامی ایئرلائن تھی، جس کے پہلے جہاز نے چین کی سرزمین کو چھوا۔ اس لینڈنگ پر پورے چین میں جشن منایا گیا۔ پاکستان نے ایوب خان کے دور میں چین کو تین جہاز فروخت کئے تھے، جس میں سے ایک ماﺅزے تنگ استعمال کرتے تھے، اس جہاز پر آج بھی ”کرٹسی بائی پاکستان“ لکھا ہوا ہے۔ پاکستان پہلا ملک تھا جس نے چینی مصنوعات درآمد کیں اور ہم طویل عرصے تک چین کے ریزر اور سوئیاں استعمال کرتے رہے۔ پاکستان نے چینی مسلمانوں کو حج اور عمرے کی سہولت دی، چین کے حاجی بسوں کے ذریعے پاکستان پہنچتے تھے او رپاکستان انہیں حجاز مقدس تک پہنچانے کا بندوبست کرتا تھا اور پاکستان کا ویزہ بھی کبھی چینی عوام کی سب سے بڑی خواہش ہوتا تھا لیکن حیف صد حیف آج وہ چین دنیا میں رقی کی انتہا کو چھو رہا ہے۔ یہ چین 46 ارب ڈالر کے منصوبے لے کر پاکستان آتا ہے تو ہم اسے اپنی تاریخ کا اہم ترین واقعہ قرار دیتے ہیں، چین آگے نکل گیا جب کہ ہم اپنے ہی مزار کے مجاور بن گئے، ہم نے کبھی چین کی ترقی اور اپنی ترقی کا جامع تجزیہ نہیں کیا، ہم نے کبھی ان وجوہات کا جائزہ نہیں لیا، جن کے باعث چین، چین ہو گیا، جن کے باعث چین نے چاند تک ”میڈ ان چائنا“ کی مہر پہنچا دی، جن کے ذریعے چین نے نہ صرف اپنے سوا ارب لوگوں کو روزگار، صحت، تعلیم اور شاندار زندگی فراہم کی بلکہ وہ دنیا بھر کے ساڑھے چھ ارب لوگوں کی ”ماں“ بن گیا۔ ہم نے کبھی چین کا سائنسی بنیادوں پر تجزبہ نہیں کیا، آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو گی کہ پورے یورپ میں ایسے 39 شہر ہیں جن کی آبادی دس لاکھ سے زیادہ ہے جب کہ چین کے پچھلے تیس برسوں میں 160 ایسے نئے شہر آباد کئے ہیں جن کی آبادی دس لاکھ سے زائد ہے اور ان میں دنیا کی تمام جدید سہولتیں موجود ہیں، آج مرسڈیز کاروں کا سب سے بڑا کارخانہ چین میں ہے۔آج دنیا کی 36 ہزار ملٹی نیشنل کمپنیاں چین میں فیکٹریاں لگانے پر مجبور ہیں، لیکن ہم نے کبھی چین کی اس ترقی کی وجوہات تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی اپنے زوال کے شواہد اکھٹے کئے۔ ہم نے کبھی نہیں سوچا چین کی ترقی کے چار اصول تھے۔ (اول) مخلص لیڈر شپ (دوئم) ان تھک محنت (سوئم) اپنی ذات پر انحصار (چہارم) خودداری۔ چین نے کبھی دوسری اقوام کے سامنے کشکول نہیں رکھا۔ اس نے ہمیشہ اپنے وسائل پر انحصار کیا، یہ لوگ پندرہ بندرہ گھنٹے کام کرتے ہیں، جب اپنے کام سے فارغ ہوتے ہیں تو دوسروں کا ہاتھ بٹاتے ہیں، ان کی لیڈرشپ نے اپنا تن، من، دھن قوم پر وار دیا۔ ان کے لیڈر کا جنازہ ایک معمولی سے گھر سے نکلا، اس نے پوری زندگی کسی دوسرے ملک میں قدم نہیں رکھا۔ ہم نے کشکول کو اپنی حیثیت بنا رکھا ہے، ہم دوسروں کے وسائل پر انحصار کرتے ہیں، ہم دنیا میں سب سے زیادہ چھٹیاں کرتے ہیں اور ہماری ساری لیڈرشپ کی جڑیں ملک سے باہر ہیں۔ ہمارے ہزارں اعلیٰ عہدوں پر متمکن افراد کے پاس دوسرے ممالک کی شہریت ہے ان کے خاندان دوسرے ممالک میں رہتے ہیں، بچے غیر ملکی اسکولوں میں تعلیم پاتے ہیں اور یہ سال میں دو تین بار ”قومی مفاد“ کے دوروں کا بہانہ بنا کر قومی دولت خرچ کرکے ان سے ملنے آتے ہیں۔ انہوں نے دوسرے ممالک سے حلف وفاداری اٹھا رکھا ہے، انہوں نے پاکستان میں اپنا قیام صرف اسے لوٹنے کے لئے کر رکھا ہے اور وہاں سے سبکدوش ہو کر لاکھوں روپیہ کی پنشن کے حق دار بن کر سال کے سال اپنی پنشن کی دولت لینے واپس آجاتے ہیں اور پھر کسی جنت اراضی میں واپس ہو جاتے ہیں، آج ہم افغانستان سے لے کر روانڈا تک دوسرے ملکوں کے محتاج ہیں، ہم سانس تک ادھار کی لیتے ہیں اور ہمیں روٹی بھی دوسرے فراہم کرتے ہیں۔
ہم نے آج تک کسی ملک، کسی قوم سے یہ ہنر سیکھنے کی کوشش نہیں کی، ہم گزشتہ 74 سال سے مردار خور اور بھکاری کی زندگی بسر کررہے ہیں، ہم کبھی افغانستان میں امریکہ اور روس کی پھینکی ہوئی ہڈیاں چوستے ہیں، کبھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے پنجر پر بیٹھ کر گوشت نوچتے ہیں، آج ان واقعات کی روشنی میں صرف ایک ہی بات سامنے آتی ہے کہ قومی دولت کو ہم بے دریغ دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں اور اپنے فرائض کے معاملے میں ہماری سوچ اس نائیکہ کی سوچ ہے کہ ”ہمیں کیا ہے ہم کیا کرنا ہے“ ہم صرف حرام کی دولت سمیٹنے پر مشغول ہیں، قومی وسائل ہمارے سامنے لٹ رہے ہیں مگر ہمیں قائد کی یہ بات یاد نہیں ہے، یہ میری دولت یا تیری دولت نہیں ہے، یہ قوم کی امانت ہے، اسے ضائع کرنا جرم ہے، حرام ہے، مگر آج ہم مسلسل تنزلی کی طرف جارہے ہیں، ایک ذرا سی امید بندھی تھی کہ ہم روس اور چین کے ساتھ مل کر اپنا کشکول توڑ دیں گے اور غلامی کا طوق اتار کر پھین دیں گے مگر واہ حسرة یہ بھی اب قصہ پارینہ بننے والا ہے کیونکہ آقاﺅں کے نمک خوار اس ملک کو کبھی غلامی کے شکنجے سے نکلے نہیں دیں گے، وہ جن کی نسلیں امرتسر کے بازار حسن میں بقول بھارتی صدر سردار ذہل سنگھ کے ان کے دادا ”کنجری بازار“ میں ہار بیچتے تھے، اسی نائیکہ کی سوچ کے حامل ہیں اور ان کی اولاد بھی اس سے آزاد نہیں ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں