سیاسی رسم 448

ٹڈی دَل کے حملے وبالے جان

دنیا کے مختلف ممالک اس وبا کی لپیٹ میں ہیں جس میں پاکستان بھی شامل ہیں۔ آج کل پاکستان میں کرونا کے ساتھ ٹڈی دل کا بھی شور ہے جس کے باعث کسان اور زمیندار سخت پریشان ہیں۔ ٹڈی دل عذاب الٰہی کی ایک صورت ہی ہے۔ پاکستان میں ٹڈی دل کا حملہ سن 1976ءیا 1977ءمیں بھی ہوا تھا، پر اس وقت بڑے نقصان سے بچ گئے تھے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور فصلیں جہاں ہماری غذائی ضروریات پوری کرتی ہیں وہیں، ہماری معیشت کے لئے بھی اہم ہیں۔ ٹڈی دل آندھی کی طرح آتا ہے اور یہ لشکر کئی کلومیٹر پر پھیلے کھیتوں کو پلک جھپکتے اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور اس کے بعد کسان کچھ نہیں کر سکتا۔ ٹڈی دل اس کی آنکھوں کے سامنے اس کی فصل کا صفایا کر دیتا ہے۔ ٹڈی دل کے لیے یہ منٹوں کی بات ہے۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر لودھراں کے ایک گاﺅں کے باسی اسلام خان نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ چند روز قبل ٹڈی دل نے ان کی کپاس کی فیصل پر حملہ کیا تھا۔ جو انھوں نے حال ہی میں کاشت کی تھی۔ ٹڈی ان کے رقبے پر صرف 25 منٹ کے لگ بھگ ٹھہری ہوگی اور اس کے بعد کچھ نہ بچ سکا۔ ان کے 60 ایکڑ کے کھیت میں کپاس کا پودا ٹڈی دل کچھ ہی وقت میں ہضم کر گیا تھا۔ ایسامحسوس ہوا جیسے کوئی آندھی آرہی ہے۔ یہ صبح آٹھ بجے کے آس پاس کا وقت تھا۔ وہ اتنی بڑی تعداد میں تھیں کہ سورج کی روشنی بھی کم ہوگئی تھی۔ ٹڈیوں کا وہ جھنڈ لگ بھگ چھ کلومیڑ طویل تھا۔ اور اس کی چوڑائی دوکلو میڑ کے قریب تھی۔ وہ جب ان کی زمین پر اترا تو دوبارہ اڑنے سے پہلے دس کلو میڑ آگے تک فصلوں کا صفایا کرتا گیا۔ دوسرے ممالک میں اس کے حملہ کی نسبت یہ ایک چھوٹا لشکر تھا۔ ورنہ براعظم افریقہ کے ملک کینیا میں گذشتہ برس ایک لشکر دیکھا گیا۔ جس کا حجم سائنس نیچر نامی جریدے کے مطابق امریکہ کے شہر نیویارک سے تین گنا بڑا تھا، افریقہ میں ٹڈیوں کے اتنے بڑے جھنڈ بھی نکلے ہیں جن کی وجہ سے پرواز یں معطل کرنا پڑیں۔ یہی ٹڈی دل افریقہ سے اڑتا ہوا پاکستان بھی پہنچا ہے۔ اقوام متحدہ کے خوراک اور زراعت کے عالمی ادارے ایف اے او کے مطابق ٹڈی دل 90 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے پرواز کر سکتا ہے۔ یعنی ایک گھنٹے میں وہ 160 کلومیڑ کافاصلہ طے کر سکتا ہے۔ اس کی پرواز کی رفتار اس کا حجم فصلوں کے لیے اس کی رغبت اور دیکھتے ہی دیکھتے فصلوں کو چٹ کر جانے کی صلاحیت نہ صرف اس کا شکار ہے بلکہ حکومتوں کے لیے بھی کسی ڈراﺅنے خواب سے کم نہیں ہیں۔ وہ کسان جو ٹڈی دل کے حملہ سے دوچار ہوئے ہیں وہ اپنی بے بسی کا عالم کے بارے میں کہتے ہیں۔ جب وہ ہمارے سامنے ہمارے فصل کو اجاڑ رہی تھی تو ہماری حالت ایسی تھی کہ اب روئے کہ کب روئے، ایسا لگ رہاتھا کوئی ہمارے جسم کا حصہ کاٹ رہا ہے۔ ان کی مہینوں کی محنت اور لگ بھگ 50 لاکھ روپے مالیت کی فصل ٹڈی نے محض 25 منٹ میں ختم کر دی۔
ایف اے او کے مطابق ٹڈی دل کے صرف ایک مربع کلو میڑ بڑے جھنڈ میں 80 کروڑ بالغ کیڑے ہوسکتے ہیں۔ جو ایک دن میں 35 ہزار انسانوں کی خوراک کے برابر فصلیں کھا جاتے ہیں۔ اب تک صرف جنوبی پنجاب میں ٹڈی دل ڈھائی ہزار ایکڑ پر کپاس کو اب تک تباہ کر چکا ہے اور ابھی موسم گرم کا آغاز ہے جس میں اس کے حملوں میں بتدریج اضافہ متوقع ہے۔ اس جھنڈ کا نشانہ خریف کی فصلیں ہوں گی جن میں گنا، چاول، کپاس اور مکئی نمایاں ہیں۔
پاکستان میں ٹڈی دل اس وقت تقریبا آدھے ملک میں پھیلا ہوا ہے۔ وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ فخرامام نے حال ہی ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ لک بھگ 60 اضلاع ٹڈی دل سے متاثر ہیں۔ جن میں صوبہ بلوجستان میں یہ سب سے زیادہ پائی جاتی ہے۔ فخرامام کے مطابق رواں اور آئندہ ماہ کے دوران ٹڈی دل کے مزید جھنڈ ہارن آف افریقہ (یعنی افریقہ کے بالکل مشرقی کونے میں واقع پانچ ممالک )کے جھنڈ جون اور جولائی کے مہینے میں جبکہ ایران میں موجود جھنڈ دو سے تین ہفتے میں پاکستان میں داخل ہو سکتے ہیں۔ ایران میں اس وقت ٹڈی دل کا ایک بہت بڑا حملہ جاری ہے۔
پاکستان کا مسئلہ دوہرا ہے جو ٹڈی گذشتہ برس آیا تھا۔ وہ ابھی نہیں گیا۔ بلکہ اور ملک کے اندر بھی مختلف مقامات پر اس کی افزائش اور حملے جاری تھے۔ وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکیوٹی اینڈ ریسرچ فخرامام کے مطابق ٹڈی دل کا یہ پاکستان میں 28 برس کے بعد ایک بڑا حملہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹڈی دل مشرقی افر یقہ مشرق وسطی سے ہوتا ایران کے راستے پاکستان میں داخل ہوا۔ رواں برس افغانستان سے بھی ٹڈی پاکستان آیا جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ اس مرتبہ ایران سے یہ افغانستان گیا اور وہاں سے پاکستان میں داخل ہوا اور صوبہ پنجاب کے علاقوں کی طرف چلا گیا۔ پاکستان کو ٹڈی دل سے متاثر ہونے والے چند بڑے ممالک میں شامل کیا جا رہا ہے۔
بنیادی طور پر پاکستان میں ٹڈی دل عرب کے صحراﺅں سے آیا ہے۔ عالمی ادارے ایف اے او کے مطابق ٹڈی دل کی تعداد میں آٹھ ہزار گنا زیادہ اضافہ ہے۔ جو سنہ 2018ءکے اوائل میں عرب کے صحراﺅں میں تقریباً 25 برس بعد رونما ہوا۔ ایف اے او کے مطابق سنہ 2018ءمیں دوبڑے سمندری بگولوں کی وجہ سے ایمپٹی کو ارٹر نامی صحرا میں معمول سے زیادہ بارشیں ہوئیں۔ یہ صحرا سعودی عرب، اومان، یمن اور کچھ دوسرے عرب ممالک کی سرحدوں سے ملتاہے۔ ان بارشوں کے نتیجے میں ٹڈی دل کی تین نسلیں ایمپٹی کوارٹر میں پروان چڑھیں اور اس کی تعداد میں آٹھ ہزار گنا اضافہ ہوا۔ ایمپٹی کوارٹر میں جس جگہ اس کی افزائشں ہوئی، وہاں نگرانی نہیں کی جا سکی اور نہ ہی اس کی روک تھام ہوئی۔ جب تک اس کا پتہ چلا ٹڈی کے جھنڈ وہاں سے نکل کر دوسرے ممالک کا رخ کر چکے تھے جن میں سعودی عرب، ایران، یمن شامل ہیں۔
پاکستان میں ٹڈی دل پہلے سے بھی موجود تھا۔ یہ گذشتہ برس آیا تھا۔ مگر زیادہ ترنکل نہیں پایا اس نے ملک کے صحرائی علاقوں خصوصاً بلوجستان میں افزائش نسل کی، ساتھ ہی رواں برس اس کے اور جھنڈ افریقہ اور مشرق وسطی سے پاکستان میں داخل ہوئے تھے۔ پاکستان کے وفاقی برائے نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ فخرامام کے مطابق پہلے ٹڈی دل جس راستے سے پاکستان میں داخل ہوتا ہے اسی راستے سے موسم سرما میں واپسی بھی چلاجاتا تھا لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اس مرتبہ بلوچستان میں غیر معمولی بارشیں ہوئیں جس کی وجہ سے یہ وہیں رک گیا تھا جو کے اہم وجہ ہے۔ پاکستان میں ٹڈی دل کے افزائش نسل کی۔ اس وقت ٹڈی دل پاکستان میں بلوچستان صحرائے تھر، سندھ ، چولستان اور جنوبی پنجاب کے علاقوں میں موجود تھا جہاں اس کی افرائشں نسل بھی جاری تھی۔ وفاقی وزیر برائے نیشیل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ فخرامام کے مطابق ٹڈی دل کی افرائشں انتہائی تیز ہوتی ہے۔ اس کی ایک مادہ دو سو سے 1200 بچے دیتی ہے۔ ایک سال میں اس کی تین نسلیں پروان چڑھ سکتی ہے۔ افزائش نسل کے لیے ٹڈی دل اس وقت صحراﺅں کا رخ کیے ہوئے ہے اور بلوجستان کے علاوہ چولستان اور دیگر ریتیلے علاقوں میں اپنی تعداد کو تیزی سے بڑھا رہا ہے۔ پاکستان میں اس آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے این ڈی ایم اے کے مطابق ملک بھر میں تقریبا پانچ لاکھ ہیکٹر رقبے پر اسپر ے کیا جا چکا ہے جبکہ 1102 لوکسٹ کنٹرول آپریشن میں حصہ لے رہی ہیں۔ این ڈی ایم اے کے مطابق 31 مئی تک پاکستان کے 52 اضلاع میں ٹڈی دل موجود تھا۔ جس میں بلوچستان میں 31، خیبرپختو نخواہ میں 10، پنجاب میں 5 اور سندھ میں 6 اضلاع متاثر تھے۔ ساتھ ہی گذشتہ 24 گھنٹوں میں 4900 ہیکٹر رقبے پر محیط علاقہ ٹڈی مار ادویات سے ٹریمٹنٹ کیاگیا ہے۔ صرف بلوجستان میں 3200 ہیکٹر رقبہ پر اسپر ے کیا گیا ہے۔ بے شک ٹڈی دل کسانوں اور معیشت کے لیے خدا کے ایک عذاب کی طرح ہی نازل ہوتا ہے۔ پر اس عذاب کے زد سے قوم کا ایک ایک فرد متاثر ہوتا ہے۔ یہ فکر غور کرنے کی بات ہے ایک طرف کرونا دوسری طرح ٹڈی دل دونوں کا شکار مختلف انداز میں ایک ہی ہے۔ پاکستان کے لیے اس طرح کی وبائیں آنا بڑے خطرے کی علامت ہے۔ پاکستان پہلے ہی معیشت کے لحاظ سے کمزور ہے۔ پھراس طرح کی وبائیں آنے کا مطلب ہے کسی بھی معیشت کا جنازہ نکال دینا۔ ایسی وبائیں بے سبب نہیں آتی۔ ان کے آنے کی وجہ صاف ہے۔ جب کسی معاشرے سے انسانیت اور احساس ہمدردی ختم ہو جاتی ہے تو اس طرح کی وبائیں آکر بتاتی ہیں اب بھی وقت ہے اپنے اعمال پر غور کرلو۔ اللہ کا ہم مسلمانوں پر کرم ہے کے وہ پہلے کی قوموں کی طرح ہم پر اپنا عذاب نازل نہیں کر رہا۔ ہم لوگ خوش نصیب ہیں کے ہم رسول پاک کی امتی ہیں۔ پر کبھی سوچا ہے مرنے کے بعد روزے قیامت والے دن کسی منہ سے اللہ اور رسول کا سامنا کریں گے؟ اللہ مسلمانوں کے حال پر اپنی رحمت کے ذریعے ہدایت نازل کرے۔ آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں