۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 177

پرندے کوچ کرتے ہیں

ہماری تاریخ میں یہ کوئی جمہوریت یا روایت نہیں ہے کہ جس نے بھی خلوص دل سے قوم کی خدمت کی کوشش کی اسے مفاد پرستوں نے غداروں اور ملت فروشوں کے ہاتھوں ناکام ہونا پڑا ہو۔ بھلا ایسے فرد کو کوئی برداشت کریکگا جو اپنے مفاد سے زیادہ قوم کے مفاد کو مقدم رکھتا ہو، یہ بے حس، بدکردار افراد جو نام نہاد شرافت کا لبادہ اوڑھے ہیں کہ جبہ و دستار میں بڑے اور خائن ہوں، انسانوں کے بھیس میں بھیڑئیے جو خود کو سیاست دان کہتے ہوں اور یہ قاتل جن کی دولت ہوس لامحدود ہو، یہ ہر دور میں نام بدل بدل کر حق پر چلنے والوں کے خلاف صف آراہ رہتے ہیں، کبھی یہ فرعون کی شکل میں آتے ہیں، کبھی یہ ابوجہل اور ابو لہب کی صورت میں آتے ہیں۔ یہی یزیدی بھی ہیں اور یہی میر جعفر و میر صادق بھی ہیں جو کبھی سراج الدولہ کی پیٹھ پر خنجر گھونپتے ہیں، تو کبھی ٹیپو سلطان کی آستین کے سانپ بنتے ہیں۔ تاریخ ان پردہ فروشوں سے بھری ہوئی ہے اس سلسلے میں حیرت نہ ہونی چاہئے کہ جناح کے قاتل، لیاقت علی خان کی جان لینے والوں اور فاطمہ جناح پر تہمت لگانے والوں کی اولادیں، قوم کو سربلند کرکے جینے کی جدوجہد کرنے والے عمران خان کے خون کے یاسے ہو رہے ہیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، یہ جو ملک کے مظلومکئے ہوئے قوم کو ایک بار پھر فروخت کرنے کے درپے ہیں تو ان میں ان کا قصور نہیں ہے کہ ان کی رگوں میں ان کے ملت فروش غداروں کا خون دوڑ رہا ہے۔ ان سے کسی نیکی کی توقع رکھنا سانپ کی فرطت کو بدلنا ہے جو ہمیشہ اپنے محسنوں کو ڈستے رہتے ہیں اور یہ فن انہیں ان کے بڑوں سے ورثے میں ملا ہے۔ یہ بکے ہوئے چہرے ایک بار پھر اپنی اپنی قیمتیں وصول کرکے پوری قوم کو ان کے ہاتھوں بیچ چکے ہیں جو کہتے ہیں کہ وقت پڑنے پر پاکستانی اپنی ماں کو بھی بیچ سکتا ہے اور ان ناخلفوں نے مادر وطن کو انہی کے ہاتھوں فروخت کردیا اور اس کی حکامت کا اعلان کردیا۔ آنے والا وقت اپنے دامن میں کیا کچھ لے کر آرہا ہے اس کی ذرا سی جھلک پاکسان ایک نامور ماہر معاشیات اور تجارتی دنیا کے ماہر ترین فرد قاسم سراج تیلی جو تاجر برادری کی سب سے اعلیٰ تنظیم فیڈریشن آف پاکستان بزنس اینڈ انڈسٹریز کے سربراہ رہ چکے نے اپنے ایک ریکارڈڈ پیغام نے جو انہوں نے عبداللہ ہارون (تخلیق پاکستان کے اہم ترین راہنما) صاحبزادے حسنین ہارون کو ریکارڈ کرایا ہے (حسنین ہارون ”ڈان“ اخبا رکے مالک“ اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے مندوب اور پاکستان کے بہت بڑے ہارون گروپ کے سربراہ ہیں نے اسے قوم کو ان مضمرات سے آگاہ کروایا ہے جو عمران خان کے بعد ملک کی معیشت کو بل ڈوز کردیں گے اور اسے معاشی بدحالی کے اس گڑھے میں دھکیل دیں گے جس کے نتیجہ میں ملک تنزلی کی آخری سطح پر چلا جائے گا یہ ایک دیوالیہ ملک اور بھکاری کی حیثیت اختیار کر جائے گا۔
عالمی مالیاتی ادارے اسے نشان عبرت بنا دیں گے اس وقت صورت حال یہ ہے کہ بیرونی سرمایہ کار اپنا سرمایہ تیزی سے نکال رہے ہیں، حتیٰ کہ غیر ملکی پاکستانی بھی اب سرمایہ کاری سے ہاتھ اٹھا چکے ہیں انہوں نے جس طرح سے پاکستان کو زرمبادلہ کے ذخائر منتقل کئے تھے وہ اب انہیں اب نکال رہے ہیں اور آئندہ کے لئے محتاط ہو گئے ہیں۔ سراج قاسم تیلی کا کہنا ہے کہ اگر یہ بدمعاشوں کا ٹولہ ملک میں برسر اقتدار آگیا تو ہم پاکستانی سرمایہ کارں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کر دیں گے کیونکہ متوقع حکمران جنہیں ہم ماضی میں آزما چکے ہیں ایک بار پھر ملک کو لوٹنے کے لئے متحد ہوگئے ہیں۔
حسین ہارون کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان میں ایک بہت بڑا مسئلہ پیدا ہو چکا ہے۔ سراج قاسم تیلی نے وہ باتیں جو کرنے کی لوگ جرات نہیں کرتے انہوں نے کہا کہ میں نے ان اداروں سے کہا کہ آپ کیا کررہے ہیں اگر آج یہ مسائل حل نہ کئے تو ملک کا کیا حال ہوگا۔ تیلی نے کہا ہک ہم نے سارے ملک خصوصاً کراچی کے صنعت کاروں اور تاجروں کو جمع کیا جس میں لوگوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اس کا لب و لباب یہ ہے کہ جو کچھ ہم خطرہ پیش کررہے ہیں کہ نواز شریف علاج کے بہانے باہر جا کر جو باتیں کررہے ہیں وہ ڈھکی چھپی نہیں ہیں اور فضل الرحمن جو فوج کے بارے میں باتیں کررہا ہے ہم نے چیف آف آرمی اسٹاف سے کہہ دیا ہے کہ اگر یہ لٹیرے اقتدار میں آگئے تو فیصلہ کیا ہے کہ ہم ملک سے اپنا سرمایہ باہر لے جائیں گے، کیا کوئی نواز شریف کو لیڈر مان سکتے ہیں کیا زرداری لیڈر مان سکتے ہیں کیا الطاف حسین لیڈر ہے، کیا اچکزئی لیڈر ہے، کیا اسفند یار خان لیڈر ہے، اگر فوج ایک بار پھر ان ہی کے کندھوں تو ہم اب اس بات کے لئے تیار ہیں کہ اگر فوج نے اس بار پھر ہم پر نواز شریف، زرداری، فضل الرحمن، اسفند یار ولی، محمود خان اچکزئی کو قوم پر مسلط کرنے کی کوشش کی تو ہم اپنا سرمایہ پاکستان سے باہر منتقل کر دیں گے، یہ فیصلہ ان افراد نے کیا ہے جو کہ ملکی اقتصادیات میں ریڑھ کی ہڈی رکھتے ہیں اور سارے ملک کی معیشت ان کے دم قدم سے چلتی ہے اس کے بعد اگر فوج چاہتی ہے کہ یہ لٹیرے پھر مسلط ہو جائیں، نواز شریف اپنے کارخانے لگالے، زرداری اپنے ملز لگالے، فضل الرحمن مدرسوں پر مدرسے قائم کرے، جو تعلیم کے مراکز نہیں بلکہ بدمعاشوں اور غنڈوں کے گڑھ ہیں۔ اسفند یار ولی اپنے مدرسے قائم کریں، تو یہ سب کر لیں مگر ہم کسی قیمت پر ان کو منظور نہیں کریں گے۔ انہوں نے فوج کے سربراہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر فوج ان بدمعاشوں کی دھمکیوں اور مقابلے کا چیلنج کا جواب نہیں دے سکتی او ران سے خوف زدہ ہے تو پھر ہم سے اس بات کی امید نہ رکھے کہ ہم اس ملک میں رہیں گے۔
انہوں نے عمران خان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ تم وزیر اعظم بنے بیٹھے ہو اور ان باتوں کو سن رہے ہو اگر تم میں جرات نہیں ہے تو وزارت عظمی چھوڑ کر بازار حسن میں پھولوں کے ہار بیچو۔ اگر مرد ہو تو کھل کر سامنے آﺅ اور اگر تمہیں نکال بھی دیں تو ہم ایک مرتبہ پھر دو تھائی اکثریت سے کامیاب کرادیں گے (بازار حسن میں پھولوں کے ہار بیچنے کی بھی ایک تاریخ ہے جب ضیاءالحق نواز شریف جب وہ پنجاب کا وزیر خزانہ تھا اپنے ساتھ ہندوستان لے گئے صدر بھارت سردار ذیل سنگھ سے اس کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ بھی امرتسر کے علاقہ جاتی عمرہ کے رہنے والے ہیں تو سردار ذیل سنگھ نے کہا کہ کس خاندان کو ہے جب نواز شریف نے اپنا خاندان بتایا تو سردار ذیل سنگھ نے کہا کہ اوئے تمہارا باپ کنواں سے پانی نکالنے والے ٹین کے ڈبے بناتا تھا اور تمہارا دادا امرتسر چکلے میں پھولوں کے ہار بیچتا تھا ان کی اولاد ہو تم) سراج قاسم تیلی نے عمران خان سے کہا کہ مرد بنو اور کھل کر ان بدمعاشوں اور فوج کو کھل کر بات کرو اور ہم تمہیں ضمانت دیتے ہیں کہ اگر تمہیں نکال بھی دیا گیا تو ہم ایک بار پھر تمہیں بھاری اکثریت سے کامیاب کرادیں گے۔
حسین ہاروں نے کہتے ہیں کراچی کے صنعت کاروں اور تاجروں کے متفقہ طور پر فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ ایک بار پھر اپنی دولت، عزت اور جان کو ان لٹیروں کے ہاتھ نہیں لگنے دیں گے، کیونکہ ان کا دور حکومت ایک دوزخ ہے جس میں رہنا خود کو اذیت میں مبتلا کرنے کے برابر ہے جو اب تمہیں کسی قیمت پر منظور نہیں ہے۔ اس صورت حال میں ملک جس اقتصادی بحران سے گزرنے والا ہے اس کا تصور ہی لرزانے کے لئے کافی ہے مگر فوج کے سربراہ نے یوکرین میں روس کی مذمت کرکے ثابت کردیا ہے کہ ہم نے امریکہ کی غلامی کا پٹہ ایک مرتبہ پھر اپنی گردن میں ڈال لیا ہے۔
اگر ملک کے اعلیٰ ترین ماہر اقتصادیات بڑے کرب کے ساتھ یہ فیصلہ سنا رہے ہیں جو ان کا ذاتی نہیں بلکہ ملک کے صنعت کاروں، تاجروں اور سرمایہ کاروں کا ہے تو پھر اس ملک کا خدا حافظ ۔ ہم عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے در کے سوالی بن جائیں گے اور ہمارا حشر بھی وہی ہو گا جو سلطنت عثمانیہ کا ہو چکا ہے۔ جو آج سری لنکا کا ہو رہا ہے، تمہیں تو کوئی بیل آﺅٹ کرنے کو پھر تیار نہیں ہو گا کیونکہ ہمارے ”مسلمان بھائی“ بھارت اور روس کے ساتھ پینگیں بڑھا رہے ہیں، پھر سی پیک رول پیک ہو گا پھر ہمارا ایٹمی اثاثے جو دشمن کی نظر میں کھٹکتے ہیں کی باری آئے گی تو پھر فوج صرف تالیاں بجانے کے لئے رہ جائے گی اور نواز شریف اپنے پیارے مودی کی گود میں بیٹھ کر متحدہ پنجاب کے خواب کی تعبیر پورا کردے گا مگر ملک سے پرندے کوچ کر جائیں گے اور بقول مصطفیٰ زیدی مرحوم
یہ اک اشارہ ہے آفات ناگہانی کا
کسی جگہ سے پرندوں کا کوچ کر جانا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں