۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 623

پھر بوئے ہیں کانٹے۔۔۔؟

وزیر اعظم عمران خان نے 22 سال بعد سخت جدوجہد کرکے اپنا خواب پورا کرلیا اور انہوں نے اقتدار حاصل کرلیا۔ اپنی پہلی پالیسی تقریر میں انہوں نے نہ اپنے سیاسی حریفوں پر تنقید کی نہ ان عناصر میں کیڑے نکالے جنہوں نے ان کی کردار کشی میں دن رات ایک کردیئے اور نہ ہی ان یکطرفہ میڈیا کے بارے میں ایک لفظ کہا جو ان کے مخالفین کے خزانوں کے بل بوتے پر ان پر دشنام طرازی کرتا رہا۔ نہ نہوں نے ان بدکردار لٹیروں کے بارے میں کچھ کہا جو ملک کو لوٹ کر دولت کے انبار دوسرے ملکوں میں جمع کرتے رہے جو ملک میں عیدیں منانے کے روا دار نہیں تھے جن کے بچے اربوں ڈالر کے مالک بن کر اپنی ولدیت سے منکر ہو گئے یا وہ جو اپنی خواتین کو جعلی بیماریوں میں مبتلا کرکے اور ان کی آڑ لے کر اپنی جان بچانے کی کوشش کرتے رہے اور نہ ہی ان کے متعلق کچھ کیا جو ملک کے اعلیٰ ترین عہدے پر قابض ہو کر ملک کو کنگال کرلیا اور اپنی مکاری سے ایک ایسی کرپٹ انتظامیہ بنا کر جس کی زندگی اور موت اس کے اقتدار کے ساتھ مشروط ہے، لوٹ مار کے ریکارڈ بنا گیا۔ عمران خان نے کسی ایک فرد کا نام نہیں لیا کسی پر کیچڑ نہیں اچھالی، کسی پر کوئی دشنام طرازی نہیں کی۔ نہ انہوں نے ان کے بارے میں کچھ کہا جو خود کو پاکستان کو اپنے باپ کی جاگیر سمجھتے ہیں اور بادشاہ وقت سمجھ کر ظل الٰہی کہلاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ اگر نہ ہوں گے تو منہ میں خاک پاکستان بھی نہیں ہو گا۔ یہ کوتاہ قد بونے خود کو خدائی کا درجہ دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہر شخص ان کی غلامی کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔
عمران خان نے اپنی تقریر میں ان عزائم کا اظہار کیا جو وہ اپنے دور میں کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ان کے بیان میں کہیں بھی نظر نہیں آتا تھا کہ یہ شخص اپنی شخصیت کو ابھارنے کے لئے یا مرکز نظر بننے کے لئے کچھ کہہ رہا ہے بلکہ اس کا مرکز نگاہ پاکستان کا وہ طبقہ تھا جسے کسی حکمران نے 70 سال میں اس قابل نہیں سمجھا کہ اس کی کوئی بات کی جائے۔ ان کے اس بیانئے کو سن کر دل میں ایک ہی خیال آتا تھا کہ
پھر کررہا ہوں وحشت تنظیم گلستان
پھر بو رہا ہوں جان کو کانٹے بہار میں
ان کا موضوع نہ تو اقتدار برقرار رکھنے کے لئے جھوٹے دعوتے تھے نہ ہی سبز باغ، نہ یہ کہ وہ ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں گے۔ نہ ملک کو جنت بنانے کے دعوے نہ ہی پیرس اور لندن جیسے شہر بنانے کی لایعنی باتیں ان کا مطمع نظر پاکستان کے عوام تھے۔ وہ عوام جنہیں حکمران وہ چوپائے سمجھتے ہیں جن کو بوقت ضرورت استعمال کرکے فراموش کردو، انہوں نے ان بچوں کی بات کی جو پانچ سال کی عمر میں ہی دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں ان بچوں کو یاد کیا جو پیٹ بھر کے غذا حاصل نہ کرنے کے باعث بالیدگی نہیں حاصل کر سکتے انہوں نے ان دو کروڑ بچوں کو بھی نہیں بھلایا جو اسکول جانے کی استاعت نہیں رکھتے انہوں نے ان افراد کی بات کی جو اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں بنیادی انسانی حقوق حاصل نہیں ہیں۔ انہوں نے قوم کو ملک کی صحیح تصویر دکھائی تاکہ وہ کسی خیالی جنت میں نہ رہیں انہوں نے کہا کہ ملک اس وقت بے روزگاری، قرضوں اور دیگر مصائب کا شکار ہے انہوں نے بتایا کہ صاحب اقتدار افراد کے پاس کروڑوں کی گاڑیاں اور پرتعیش رہائش گاہیں ہیں دوسری طرف عوام کو بنیادی سہولتیں میسر نہیں ہیں، سابق وزرائے اعظم غیر ملکی دونوں پر کروڑہا روپیہ خرچ کرتے ہیں حتیٰ کہ اسپیکر قومی اسمبلی بھی اس مد میں آٹھ کروڑ روپیہ لٹا چکے ہیں انہوں نے پوچھا کہ یہ افراد کوئی ملک فتح کرنے کے لئے دوسرے ممالک جاتے ہیں؟ عمران خان نے کہا کہ اب لوگوں کو اپنی سوچ بدلتی ہو گی اور پیغمبر اسلام کے اصولوں پر عمل کرنا ہوگا۔ انہوں نے مدینے کی ریاست کی مثال دے کر کہا کہ اس کے لئے سب سے پہلے قانون کی بالادستی پر عمل کرنا ہوگا۔ انہوں نے اچھے حکمران کے لئے صادق اور امین ہونا اور خود کو احتساب کے لئے پیش کرنا ضروری کیا۔ یہ جو مسلمانوں کا ورثہ تھا اس پر مغربی ممالک عمل کررہے ہیں جہاں برطانیہ کے وزیر اعظم کو جھوٹ بولنے پر اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔ انہوں نے موجودہ حکمرانوں کے برعکس سادگی سے رہنے کا اعلان کیا اور تین کمروں کے گھر میں رہنے اور دو ملازم اور دو گاڑیاں رکھنے کا اعلان کیا جب کہ سابق وزیر اعظم کے 524 ملازم اور 80 گاڑیاں ہوتیں تھیں جن میں 30 بلٹ پروف گاڑیاں تھیں جن کی ایک کی قیمت 5 کروڑ روپیہ ہے اب انہیں فروخت کرکے رقم قومی خزانے میں جمع ہوگی۔ انہوں نے اعلان کیا کہ وہ انتہائی سخت احتساب کریں گے اور بلاتفریق ہر ایک سے لوٹی ہوئی دولت واپس لیں گے، وہ بیوروکریسی کے نظام کو بھی درست کریں گے جب کہ پولیس اور عدالتی نظام میں بھی اصلاحات کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے نتیجے میں یہ عناصر سڑکوں پر احتجاج بھی کریں گے، جمہوریت کو خطرہ ہے کا واویلا بھی مچائیں گے اور ان کی راہ میں رکاوٹیں بھی ڈالیں گے لیکن وہ عوام کی مدد سے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے اور اگر زندہ رہی تو اس کے ثمرات بھی دیکھیں گے۔ عمران خان نے جو ایک مشکل چیلنج قبول کیا ہے وہ بادی النظر میں دشوار لگتا ہے مگر خان جو کسی کی ”ڈکٹیشن“ نہ لینے کی عادت رکھتے ہیں، سنتے سب کی ہیں اور کرتے ہمیشہ اپنی ہی ہیں، اس صورت حال میں وہ ریاستی اداروں کے لئے قابل قبول ہوں گے یہ وقت ہی بتائے گا مگر خدائی کلام ہے کہ خدا کبھی بھی اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جو اپنی حالت خود نہ بدلیں، سو وہ اللہ پر بھروسہ کرکے میدان میں کود پڑے ہیں اور اللہ ہی ان کا حامی و ناصر ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں