۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 783

”چو، کفر از کعبہ۔۔۔“

ذرا تصور کیجئے کہ آپ نے کسی کے بل بوتے پر اپنی پوری زندگی، عقیدہ، نظریات حتیٰ کہ مذہبی اعتقادات تک داﺅ پر لگا دیئے اور سب سے منہ پھیر کر نکّو بن گئے گویا کوّے نے مور کے پر لگا لئے اور اپنے تعین بادشاہ سے زیادہ بادشاہ کا وفادار ثابت کرنے کے لئے پورے معاشرے سے کٹ کر ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائی حتیٰ کہ ان کے نقطے پر نقطے لگاتے ہوئے ان کے چاند پر اپنی عیدیں بنا لیں جب کہ کروڑوں افراد روزے رکھ رہے ہیں اور آپ ہیں پشاوری مسجد کی عید مناتے ہوئے چھپے چھپے پھر رہے ہیں۔ ادھر آہ ہو رہی ہے تو انہیں بھر رہے ہیں اور واہ ہو رہی ہے واہ واہ کررہے ہیں اور سب کچھ آپ کس لئے کررہے ہیں؟ سواد اعظم سے منحرف ہو کر ہزاروں میل پر بیٹھے ہوئے بدوﺅں کو کیوں حواسوں پر پاری کئے ہوئے ہیں؟ سرکار شرماتے ہیں، کہہ دیجئے، ہائے ریال وائے ریال مگر آپ جاگ جائے آپ کے آقایاں ولی نعمت آپ سے منہ موڑنے والے ہیں اب وہ آپ کے منہ سے نوالہ چھیننے والے ہیں۔ آپ نے جس کی محبت میںسب سے منہ پھیرا تھا اب وہ آپ سے اپنا رُخ موڑ رہے ہیں۔ وہ ملک جو ہر مسلمان کے لئے ایک رول ماڈل تھا جس کے قبلے کی طرف ہر مسلمان کا رخ کرکے نماز پڑھنا فرض تھا اب خود اپنا قبلہ تبدیل کررہا ہے اب وہ اپنی گرتی ہوئی معیشت سے خوفزدہ ہو کر جو روز بروز مائل زوال ہے اپنے لئے نئے نئے راستے تلاش کررہا ہے تاکہ اس کے اللے تللے جاری رہ سکیں۔ وہاں شہزادے گرفتار کرکے اور انہیں فائیو اسٹار پرتعیش ”جیلوں“ میں قید کرکے کھربوں ڈالر نکلوائے جارہے ہیں۔ اب یہ دیکھا جارہا ہے کہ کس کس شہزادے کی لاس ویگاس (امریکہ) کے قمار خانوں اور قحبہ خانوں میں کتتی سرمایہ کاری ہے اور کس کس نے ناجائز طریقے سے سرمایہ لوٹ کر غیر ممالک میں عیاشیوں کے اڈے بنا رکھے ہیں۔
موجودہ ولی عہد جو یقینی طور پر اپنے باپ کے بعد یا ممکن ہے اس کی زندگی میں ہی اقتدار سنبھالے، اب اپنے اپنے قبلے امریکہ اور اسرائیل کے زیر اثر ملک کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لئے وہ بنیادی فیصلے کررہا ہے جس سے سعودی عرب ایک جدید ماڈرن اور ایک آزاد خیال ملک بن جائے اب وہابیت کو خیرباد کہہ کر امریکی ماہرین تعلیم کی مدد سے نئے نصاب تیار کئے جارہے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں وہابی تعلیم سے دنیا میں دہشت گردوں کی نرسری تیار ہوتی ہے جو ساری دنیا میں اپنی تربیت یافتہ دہشت گردوں کی فوج سے شورش برپا کرتے ہیں یہ بات امریکہ کی سمجھ میں 9/11 کے بعد آئی مگر یہ بات کسی کی سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ 9/11 کا المیہ نہ مسلمانوں کا برپا کردہ ہے نہ سعودی جیسے قدامت پسند ملک کا بلکہ یہ سارا ڈرامہ صہونیت کا وہ پلان ہے جن کے ذریعہ اس نے مسلمانوں کو دہشت گرد اور وسائل سے مالا مال مسلم ممالک پر قبضہ کرنے کے لئے کھیلا ہے اور اس کی مثال افغانستان، عراق، شام، لیبیا، یمن اور پاکستان جیسے ملک اور پھر آخر میں سعودی عرب کی مرکزیت کو تبدیل کرنا ہے جو کہ مسلم امہ کے لئے تمام خامیوں کے باوجود تبرک ہے چنانچہ اب سعودی عرب میں سرکاری مفتیوں کے ذریعہ وہ فتاوے آنے شروع ہو گئے ہیں جس کا کچھ عرصے قبل کوئی تصور نہیں تھا اب وہاں خواتین کے لئے قیود کو نرم کیا جارہا ہے اب وہ عبا سے بھی آزاد ہوں گیں۔ ڈرائیونگ کر سکیں گی، انتخابات میں حصہ لے سکیں گی، سرکاری عہدہ حاصل کر سکیں گی اور تو اور اب ویلانٹائن ڈے پر محبوب کو پھول بھی پیش کر سکیں گی۔ اس انقلابی تبدیلی کے ساتھ ساتھ سعودی عرب اپنی معیشت کی بدحالی کے باعث شہریوں اور خصوصاً غیر ملکیوں پر ٹیکسوں کا بھاری بوجھ ڈال رہا ہے، حاجیوں اور معتبرین پر بھاری ٹیکس عائد کیا جارہا ہے اور سب کا سب اقتصادی ماہرین کی ہدایت پر ہو رہا ہے جو غیر ملکی ہیں جنہوں نے سعودیوں کو ایران کا ہوا دکھا دکھا کر اس کی فوجی اخراجات اس قدر بڑھا دیئے ہیں کہ اس کے موجودہ وسائل اسے پورا کرنے میں ناکام ہیں، کھربوں ڈالر کے بوئنگ طیاروں کی خریداری امریکہ اسلحہ ساز کمپنیوں کے کھربوں ڈالر کے معاہدے اور امریکی اور پاکستانی افواج کے بھاری اخراجات کے ساتھ ساتھ 500 ملین ڈالر سے ساحل سمندر پر ایک جدید ترین شہر کی تعمیر کا منصوبہ جہاں سعودی قوانین نافذ نہیں ہوں گے اور خالصتاً ایک سیاحتی مرکز ہو گا، جیسے دبئی، بیروت، ہانگ کانگ، لاس ویگاس طرز کا اس طرح ارض مقدس پر عیش عشرت کے سارے لوازم مہیاد کر دیئے جائیں گے تاکہ سعودی کسی اور ملک میں جا کر داد عیش کیوں لیں اور سرمایہ خرچ کریں تو کیوں نہ اپنا ذاتی عیاشی کا اڈہ کھول لیا جائے، ادھر عام سعودی کو بھی اس ”نعمت“ سے محروم نہیں رکھا گیا ہے۔ سعودی عرب میں 35 سال کے بعد سینما گھر کھول دیئے گئے ہیں جہاں اب ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کی فلمیں دھڑلے سے چلیں گی جب کہ ہندوﺅں کے مندروں کے لئے اب سعودی حکومت مفت اراضی دے گی اور اس طرح اسلام کی آمد کے بعد جن بتوں لات و مقات اور اس کے حالی موالیوں کو جو جلاوطن کیا گیا تھا اب ان کی واپسی شروع ہو گئی ہے وہ بھی نام نہاد خادم الحرمین الشرفین کے دست خاص سے خانہ کعبہ اور مسجد نبوی اب صرف سعودیوں کے لئے دولت حاصل کرنے کے ذرائع رہ گئے ہیں جہاں لاکھوں مسلمانوں کی حاضری ان کی مذہبی ضرورت اور فرض ہے۔ خصوصاً مکہ میں خانہ کعبہ کے چاروں طرف کنکریٹ کا جنگل کھڑا ہوا ہے جہاں سینکڑوں منزلوں کے 5 اور 7 اسٹار ہوٹلوں نے خانہ کعبہ کو گھیر لیا ہے یہ فلک بوس ہوٹل جو غیر ملکی ہوٹلوں کے اشتراک سے بنے ہیں۔ سعودیوں کے لئے سونے کی کان ہیں انہیں اب خانہ کعبہ کی حرمت اور تقدس کا کوئی خیال نہیں ہے بلکہ اب خانہ کعبہ لگتا ہے گویا دولت کے نرغے میں آگیا ہے اور اسے صرف اور صرف حصول دولت کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ حج جو ایک مقدس فریضہ ہے اسے بھی ان سعودیوں نے اپنے مفادات کے لئے استعمال کرلیا پہلے یہ وحشی اور اجڈ بدو گھوڑوں پر سوار ہو کر حاجیوں کو لوٹتے تھے اب یہ حاجیوں کو عیش و آرام فراہم کرنے کی بنیاد پر لوٹ رہے ہیں۔
چو، کفر از کعبہ بر خیرد، کجا ماند مسلمانی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں