۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 479

چپڑی اور چار چار

پاکستان میں برطانوی جمہوری/پارلیمانی نظام قائم ہے جہاں کے انتخابات کے ذریعہ ہر چار سال کے بعد ایک اکثریتی پارٹی تنہا یا مخلوط حکومت تشکیل دیتی ہے اس طرح ایک قومی اسمبلی صوبائی اسمبلیاں اور سینیٹ تشکیل پا کر ایک جمہوری حکومت ملک پر حکمرانی کا حق کرتی ہے۔ یہ جماعتیں اپنا اپنا منشور پیش کرتی ہیں، قطع نظر اس کے کہ وہ کیا کیا وعدے کرتے ہیں، کیسے کیسے سیاہ و سفید اور سبز باغ دکھاتے ہیں اور عوام کالانعام (کالا انعام) کا مطلب چوپائے عوام ہوتا ہے اور اسے چہہ ملا کر ہی لکھا جاتا ہے۔ سو یہ جماعتیں اپنے چوپاﺅں کو طرح طرح سے رجھاتیں ہیں، وعدے کرتی ہیں، جھانسے دیتی ہیں اور کوئی روٹی، کپڑا اور مکان دکھا کر بھوکے ننگے اور فٹ پاتھوں کو اپنے طرف بلاتی ہے جیسے کہ کوئی آدمی اپنے بکرے کو گھاس دکھا کر متوجہ کرتا ہے۔ کوئی بلی کو مائل کرنے کے لئے چھچھڑے دکھاتا ہے، کوئی اسے قیمہ بھرے نان کھلا کر شکم پرسی کرتا ہے۔ کوئی آنکھوں کے اندھوں کو بجلی کی روشنی دکھا کر اسے اندھیروں میں بھٹکانے کا بندوبست کرتا ہے۔ کوئی اسے آسمان پر پتنگ دکھا کر بعد میں بوکاٹا کہتا ہوا لندن سدھار جاتا ہے۔ کچھ جماعتیں جہنم سے ڈرا ڈرا کر اسے اس قدر دھلا دیتی ہیں کہ وہ اللہ کا بندہ راتوں میں کباب سیخ کے مانند کرونسی بلتا رہتا ہے کہ
کباب سیخ کے مانند یوں کروٹ بدلتے ہیں
جو جل جاتا ہے یہ پہلو تو وہ پہلو بدلتے ہیں
کوئی سیانا وعدے کرتا ہے کہ اگر وہ (خدانخواستہ) کامیاب ہو گیا تو پل صراط سے اسے ایسے نکال کر لے جائے گا جیسے کہ مکھن میں سے بال۔ کوئی نوجوانوں کو لجا رہا ہے کہ مثلا میرا نشان جنت ہیں جب کہ مخالف یعنی دوزخیوں سے ہو گا تو انہیں وہی ایک بلا ٹکٹ داخلہ دلائے گا۔ ہاں ایک تو وہ ہی گیا وہ ” مرد حر“ کانوں میں کہتا پھرتا ہے کہ نئی فلم، پہلا دن، پہلے شو میں گیلری کا ٹکٹ نہ تو پبلک میں نہ پیسوں میں مفت دوں گا جب کہ ایک بفچہ نام خدا روٹی میں مر گیا/ روٹی میں مر گئی، کہتا کولھے مٹکاتا اور تالیاں بجاتے ہوئے رجھاتا ہے کہ انہی اللہ رکھا کو ووٹ دینا ادھر وہ بھی بزرگ ہیں سفید براخ لباس نورانی چہرہ، انگلیاں چاٹنے کے متمنی بشارت دے رہے کہ 70, 70 فٹ کی ہوں گیں۔ سرخ و سفید ہونٹوں جیسے داشت جوہر جیسی آنکھیں بعدہ شہاب رنگت اور بال اللہ اللہ کہ
یہ کہہ کر کے ظالم نے زلفوں کو جھٹکا
کے بہت دن سے دنیا پریشان نہیں ہے
آواز کہ شعلہ سا لپک جائے ہے، آواز تو دیکھو یہاں ایک کیا 70, 70 ملیں گی اور ہونق ووٹر کیلکولیٹر سے حساب لگا رہا ہے کہ اگر انہیں 7-7 دفعہ جعلی ووٹوں سے بھگتاﺅں تو کتنی حصے میں آئے گی اور ہاں 70-70 فٹ سیڑھیوں کا بندوبست کون کرے گا ادھر وہ کھڑے ہیں بھائیوں کی جوڑی انشاءاللہ، ماشا اللہ کہہ کہہ کر اللہ والے بنے ہوئے ہیں۔ الحمدللہ ابھی پچھلے گناہوں کا کفادہ ادا کیا نہیں ہے، بہت سی بیماریاں دکھیاﺅں کو لگی ہوئی ہیں، ولایت جانے میں تو بھلے جنگے گھر آئے تو لم لیٹ فجے کے پائیوں کی پہل لگی ہوئی ہے۔ نان چھولوں کے پہاڑ سے پہاڑ کھڑے ہیں۔ نہاری اور حلیم کھلا کر ”ممنون“ ہو رہے ہیں۔ حالی موالی ساتھ ہیں، تالیاں بجا رہے ہیں، چھوٹے بڑے سب شیر و سکر ہیں، لتھڑے ہوئے ہیں، ماشاءاللہ بچہ بچہ پکار دے گا، خواص گلے گلے بدعنوانیوں میں ڈوبے ہوئے مگر سمجھتے ہیں کہ زم زم میں دھلے ہوئے ہیں۔ اس شور شرابے میں یہ کون ہیں جنہوں نے سیاست میں مذہب کا تڑکا لگا کر ایک جدت پیدا کی، ان کی سیاہ و سفید پالیسی میں ڈیزل کی بو محسوس ہوتی ہے، یہ بڑے حضرت ہیں، کئی حکومتوں میں ان کی گڈی چڑھی رہی اور یہ بیچارے کشمیریوں کے خون میں تر کرکے لقمے
توڑتے رہے، سرکاری دوروں میں چندہ جمع کرنا ان کا مشغلہ ہے اور یہ اپنے پیروکاروں کو بے ڈھنگی راہ پر چلنے کی تلقین کرتے ہیں اور حلوے کے پہاڑوں کے نیچے اپنی پانچوں گھی میں اور سر کڑھائی میں کے بمصداق دھرنوں پر ایمان رکھتے ہیں، لیکن ان کے طوطے وہ ملک ہیں جو ان جیسوں کی پرورش کرتے ہیں، مدرسے کھلواتے ہیں اور اپنا ایجنڈا ان کے ذریعہ پورا کرتے ہیں اور انہی طوطوں میں ان کی جان اور ایمان ہے۔ ارے ارے اس سیاست کے بازار میں یہ کونسی نایاب شے آگئی جہاں ایک ملکوتی حلقہ ہے، ہر شخص سنجیدہ اور تقدس کا پتلا بنا ہوا، یہاں کی فضا معطر معطر اور فرشتوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ ہے جہاں ہر طرف نور ہی نور ہے اور کیوں نہ ہو، یہ ان کی جماعت ہے، جن کے بارے میں نعرے گونجتے تھے، دیواروں پر نقش تھے ”قاضی کی بیٹھک“ ”قاضی کی چوپال“ ”قاضی کا ہجرہ“ ”قاضی کا کوٹھا“ ہاں ہاں وہ قاضی صاحب لائق صد احترام رخصت ہوئے اب اصل دولہا آیا ہے، شرمیلا شرمیلا باحیا ایک دل موہ لینے والی مسکراہٹ منہ پر رومال رکھے (یا شاید ماسک لگائے) یہ بھی سیاست کے کوچے میں برسوں سے آرچار لگائے ہوئے ہیں مگر لیلائے اقتدار ان سے ہم آغوش ہونے میں تعمل برت رہی ہے مگر اب جو اس شہسوار نے پانسہ پھینکا ہے اس کا توڑ کسی کے پاس نہیں ہے انہوں نے اس ملکوتی جماعت کی کامیاب کی جو کلید بتائی ہے اس کا توڑ کسی کے پاس نہیں ہے وہ کہتے ہیں کہ کامیابی ایک صورت ہے اور بفضل تعالیٰ ہم نے کامیابی کا نسخہ تلاش کرلیا ہے۔ نسخہ برائے ملاحظہ حاضر ہے۔
اس وقت ملک میں جماعت اسلامی کے تقریباً 10 سے 12 لاکھ ایسے کارکن ہیں جو جی جان سے جماعت کے ساتھ ہیں اور ان میں 8 لاکھ مرد اور باقی خواتین ہیں اگر یہ دس لاکھ لوگ چاہیں تو کچھ ہی سال کے اندر جماعت اسلامی اقتدار میں آسکتی ہے اس کے لئے مندرجہ ذیل لائحہ عمل دینا ہوگا۔
٭ہر مرد شریعت کے مطابق چار چار شادیاں کرے اور اپنی ہر بیوی سے ہر سال ایک ایک بچہ پیدا کرے۔
٭ہر شادی شدہ خاتون اپنے شوہر کو مجبور کرے کہ وہ خاندانی منصوبہ بندی ترک کرکے ہر سال بچہ پیدا کرے
٭اس طرح ہر سال جماعت اسلامی کے کارکنان کے گھروں میں چالیس لاکھ بچے پیدا ہوں گے اور یوں اگلے پانچ سال میں جماعت اسلامی کے کنبے میں دو کروڑ ووٹوں کا اضافہ ہو جائے گا
٭اس دوران جماعت کا ہر رکن اپنے اپنے سسرال والوں کو دعوت و تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے جس سے ہر سال مزید کئی لاکھ بالغ لوگ جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کرتے جائیں گے (یہ تعداد بونس ہے)
آگے فرمایا جماعت اسلامی کو اقتدار میں آنے کے لئے کم و پیش ایک کروڑ ووٹ لینا ہوں گے۔ جس کے بعد 20 سال کے ”قلیل“ عرصہ میں بندہ ناچیز بھی سراج الحق پاکستان کا وزیر اعظم بن سکتا ہے (خبردار جو حضرت شیخ چلی کے انڈوں کی تجارت کا کسی کے بھی دل میں خیال آیا ہو)
یہ مندرجہ جات جناب سراج الحق امیر جماعت اسلامی پاکستان کے اس خط سے لئے گئے ہیں جو انہوں نے جماعت کے عہدہ داروں کو بھیجا ہے۔ جس کا ریفرنس نمبر 7/2020 اور 02/02/2020 کو بھیجا گیا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں