۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 240

ڈاکو راج

سندھ ان دنوں ڈاکوﺅں کے قبضے میں ہے جہاں یہ ڈاکو لوگوں کو اغواءکرکے ان کے ذریعہ تاوان حاصل کرتے ہیں اور اس سے قبل دو تین بے گناہوں کو عبرت دلانے کے لئے قتل کر دیتے ہیں تاکہ نئے مغویوں پر دہشت طاری ہو اور ان کے دام میں اضافہ ہو جائے۔
یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ کلچرل کا ایک حصہ ہے۔ اس سے قبل یعنی تقسیم سے قبل بھی زمیندار اپنا رعب قائم کرنے کے لئے لوگ اپنے اردگرد رکھتے تھے جن کا مقصد ہاریوں کو قابو رکھنا اور ان سے بیگار لینا جیسے فرائض شامل ہوتے تھے گو کہ اس وقت ہندو بڑے سرمایہ دار اور ساہوکار تھے مگر کسی کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ اغواءبرائے تاوان کرلیں جب کہ تقریباً سارے مسلمان زمیندار ان کے مقروض ہوتے تھے اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی انگریزوں کا قانون سب کے سر پر چڑھ کر بولتا تھا مگر تقسیم کے بعد ان وڈیروں نے اپنے ڈاکو پالنے شروع کردیئے اور ان کے ذریعہ ہندوستان سے آئے ہوئے وہ افراد جنہیں کہ تبادلہ آبادی کے تحت زرعی زمینیں کلیمز میں ملی تھیں کو ڈرا دھمکا کر ان کی زمینوں پر قبضہ کرنا یا ان سے اونے پونے زمینیں خریدنا تھا۔ اس طرح یہ نیا کلچرل سندھ میں پنپنا شروع ہو گیا۔ سندھی وڈیرے ڈاکوﺅں کے سرپرست بن گئے جنہیں کہ پتھاریداری کا نام دیدیا گیا یہ اپنے پالتو غنڈوں اور ڈاکوﺅں کے ذریعہ جرائم کرانے لگے اور انہیں پناہ دے کر ایک طرح سے ان کے پارٹنر بن گئے۔ جب تک سندھ میں قانون کی عملداری کرنے کی ذمہ داری پاکستان پولیس سروس کے ہاتھوں میں رہی قانون نے ان عناصر کو قابو میں رکھا اور کسی بھی پارٹنر فرد کو ان جرائم میں ملوث پایا اسے قرار واقعی سزا دی اور اس طرح قانون کی بالادستی قائم ہوئی مگر جب سے نام نہاد جمہوریت پسند ذوالفقار علی بھٹو جو کہ خود ایک ٹھیٹ سندھی وڈیرہ تھا اور ان تمام اوصاف کا حامل تھا جو سندھی وڈیروں میں پائی جاتی ہے۔ اس نے سندھ کے تعلیمی نظام کو تہس نہس کر دیا۔ جس نے کوٹہ سسٹم نافذ کرکے اہل افراد کو انتظامیہ اور پولیس میں آنے سے روکا گیا اس نے سب سے بدترین کام یہ کیا کہ سول سروس میں اسسٹنٹ کمشنر اور اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس کی ملازمتیں پبلک سروس کمیشن کے تحت بھرنے کے بجائے براہ راست بھرتی کے تحت کردیا جس میں سندھی سیاستدانوں، بیورو کریسی اور با اثر وڈیروں کی نا اہل اولادیں ان عہدوں پر براجمان ہو گئیں جو آج سول انتظامیہ اور پولیس کے اعلیٰ عہدوں پر پہنچ چکی ہیں لہذا آج جو کچھ سندھ اور کراچی میں ہو رہا ہے یہ اسی سندھی گردی کا نتیجہ ہیں اس وقت سندھ کے کچے کے علاوں میں عوام الناس، ڈاکوں کے رحم و کرم پر ہیں اور یہ علاقے اتنے خطرناک ہو گئے ہیں جہاں ڈاکو دندناتے پھر رہے ہیں اور لگتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے علاقے میں وجود ہیں نہیں رکھتے یا وہ اتنے بے بس ہیں کہ طاقتور ڈاکوﺅں پر ہاتھ ڈالنا انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔ اس طرح یہ ڈاکو دن بدن اتنے طاقتور ہو گئے ہیں کہ ان سے نمٹنا اس پولیس کے بس کی بات نہیں ہے۔
جو سیاستدانوں کے کوٹوں پر یا روپیہ خرچ کرکے پولیس میں آئے ہیں۔ اس ضلع شکارپور کے بارے میں جو سیکرٹ رپورٹیں آئی ہیں اس میں بتایا گیا ہے کہ سندھ اور بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں خصوصاً کچے کے علاقے میں جہاں سرداروں اور وڈیروں کا اثر و رسوخ ہے، لاءاینڈ آرڈر کی صورت حال بے قابو ہو چکی ہے، یہ وڈیرے اور سردار ڈاکوﺅں کو اپنے سیاسی اور ذاتی اثر و رسوخ کے لئے استعمال کرتے ہیں خصوصاً جب سے اضلاع میں انتظام و انصرام پروفیشنل کے ہاتھوں میں آیا ہے امن و امان کی صورت حاصل مخدوش ہو گئی ہے اب صورت حال یہ ہے کہ یہ با اثر سیاسی وڈیرے ان ڈاکوﺅں کا قلع قمع کرنے کے بجائے ان کو پروان چڑھا رہے ہیں اور اپنے مقاصد کے لئے استعمال کررہے ہیں اس طرح جب قانون نافذ کرنے والے ادارے ان ڈاکوﺅں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں تو سرداروں اور وڈیروں کی طرف سے سخت مزاحمت کی جاتی ہے اور ہر کارروائی کو رکوا دیتے ہیں یہ عناصر ڈاکوﺅں کو بھی کسی ایکشن کے بارے میں مخبری کرکے اسے ناکام بنا دیتے ہیں جس کے بعد پولیس والوں کو جان سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں یہ بات خفیہ اطلاعات کے مطابق ضلع شکارپور جو ان واقعات کا سب سے زیادہ شکار ہے ایک سیاسی شخص امتیاز احمد شیخ جو رکن صوبائی اسمبلی ہے اور حکمران پارٹی سے تعلق رکھتا ہے اپنے سیاسی مخالفین کو ختم کرانے کے لئے ان ڈاکوﺅں کو استعمال کرتا ہے نہ صرف یہ بلکہ یہ شخص علاقہ میں منشیات کا سب سے بڑا نیٹ ورک بھی رکھتا ہے۔
اس کے بارے میں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ علاقے میں خوف و ہراس پھیلانے اور متعدد افراد کو قتل کرانے کا بھی ذمہ دار ہے جب کہ پولیس میں اس کے وفادار افراد ہر آپریشن کی خفیہ رپورٹ اسے پہلے سے دے دیتے ہیں جس کے بعد ہر آپریشن ناکام ہو جاتا ہے ایک سیاسی فرد کی بات نہیں ہے بلکہ ہر سیاسی شخصت اپنے پسند کے افراد کو اضلاع میں ایس ایچ او لگواتے ہیں اور ان کے ذریعہ ڈاکوﺅں کو من مانی کرنے کی آزادی حاصل ہو جاتی ہے جب کہ اس کا ملبہ پولیس کے اعلیٰ حکام پر گرتا ہے۔ سندھ اور پنجاب میں جہاں کا سیاسی کلچر یکساں ہے پولیس کو اپنے سیاسی اور ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا سلسلہ نیا نہیں ہے لہذا آج بھی پولیس خود کو آزاد نہیں تصور کرتی اور جانتی ہے کہ اگر سیاسی آقاﺅں کے احکام پر عمل نہیں کیا تو ان کی ملازمتیں ختم ہو جائیں گی اور اب کوئی دن جاتا ہے کہ حزب اختلاف کے مقرر کردہ اس نظام کو حکومت کو ناکام بنانے کے لئے استعمال کیا جائے گا اور امن و امان کی صورت حال نہ گفتہ بہ ہو جائے گی اور اس کا خمیازہ غریب عوام کو بھگتنا پڑے گا بلکہ بھگت رہے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں