۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 304

ڈرو اس وقت سے۔۔۔

یادیش بخیر یہ ان دنوں کی بات ہے جب کہ افغانستان میں امریکی ”جہاد“ کے نام نہاد فاتح ”مجاہدین“ کرایہ کے غازی بننے کے بعد چونکہ کسی مصرف کے نہیں رہ گئے تھے لہذا ان کی جگہ اب امریکہ نے نئے ”مذہبی ایکٹرز“ متعارف کرانے کا اپنا نیا روڈ میپ ترتیب دینا شروع کر دیا تھا اور ”تورا بورا“ کا ٹھیکیدار بن لادن جو امریکہ کا ایجنٹ تھا آہستہ آہستہ اپنا کردار سروع کرنے جارہا تھا اور اب نیا ڈرامہ جو بہت جلد پردہ سیمیں پر پیش ہونے جارہا تھا کے مرکزی کردار ملاعمر جو ان ”مومنین“ کے امیر المومنین تھے جنہیں اب مجاہدین کی اداکاری کے بعد اپنا کردار بطور طالبان ادا کرنا تھا، آہستہ آہستہ نمودار ہو رہے تھے تو ان ہی دنوں مجھے جمعیت علمائے اسلام کے اس وقت کے مرکزی راہنما (جو اب معتوب ہو کر نئے رول میں نمودار ہو رہے ہیں) حافظ حسین احمد کے ہمراہ افغانستان جانے کا اتفاق ہوا اس سے قبل میں ظاہر شاہ کے دور میں متعدد بار افغانستان جا چکا تھا (فلمیں دیکھنے کے لئے) اس کا تذکرہ آگے آئے گا تو اس دورہ میں ہمیں قندھار میں گورنر قندھار کے کسی عزیز کی شادی کے ولیمے میں شرکت کا شرف حاصل ہوا جہاں ایک شب ہمیں ملاعمر اور اسامہ بن لادن کی زیار بھی نصیب ہوئی جو اس وقت ایک عرب ٹھیکیدار جس پہاڑی سلسلے میں تورا بورا تعمیر کررہا تھا اور اب وہ افغانستان میں جدید موبائیل اسپتال فراہم کررہا تھا جس میں سے ایک کو ہم نے اندر سے دیکھا وہ اپنے وقت کا جدید ترین اسپتال تھا جس میں لگے آلات عالمی معیار کے تھے۔ جس شب گورنر ہاﺅس میں رات کے کھانے پر فضل الرحمن بھی موجود تھے اور دیگر حاضرین میں طالبان کے مقامی رہنماﺅں کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔
ان لوگوں کی گفتگو کا معیار انتہائی پکھڑ بازی بلکہ کہنا چاہئے عامیانہ جن میں بیہودہ الفاظ کا استعمال اور ان کے قہقہے ان کے ذہنی سوچ کے عکاس تھے ان لوگوں کے درمیان جو مکالمے ہو رہے تھے ان سے پتہ چلتا تھا کہ وہ کسی انداز کے فکر کے مالک ہیں ان میں اس کا پسندیدہ موضوع قوت مردی ادویات تھی جو انہیں پاکستان کے ایک حکیم اقبال شاہ فراہم کرتے تھے اور وہ ان کے معالج خصوصی تھے بہرکیفت اس طعام میں اندازہ ہوا کہ یہ رسول کریم کے خود کو جانشین کہلوانے کس قدر بسیار خور ہیں اور ان کی کھانے کے بارے میں روایات گو اس کے عشر عشیر بھی نہیں ہںی۔ وہ روٹیوں کے ٹکڑے ٹکڑے بچاتے رہے اور بعد میں ایک دوسرے سے یہ کہہ کہہ کر کھاتے رہے کہ روٹی کے بچے ہوئے ٹکڑے کھانا سنت رسول ہے۔ کوئی انہںی نہ جاننے والا ان سے مل کر کہیں سے بھی اندازہ نہیں لگا سکتا کہ یہ اس دین کے ماننے والے ہیں جس نے ساری دنیا کو تہذیب اور تمدن میں شائستگی اور نفاست سکھائی تھی۔ بہرحال وہ رات ہم نے گورنر ہاﺅس میں بسر کی صبح ان کے باتھ روم دیکھنے کا اتفاق ہوا جہاں پلاسٹک کے بڑے بڑے ایسے لوٹے تھے جنہیں لوٹا کہنا مذاق لگتا ہے وہاں کوئی آئینہ نہیں تھا جس کی تلاش میں ہم باہر ایک کمرے میں گئے جو کہ دراصل پاکستانی آئی ایس آئی کی پوسٹ تھی وہاں ایک صاحب سے ہم نے جب اپنی ضرورت بتائی اور کہا کہ یہاں باتھ روم میں آئینے نہیں ہوتے کیا؟ تو ان صاحب نے جو پنجابی تھے کہا کہ کیا ان کی صورتیں آئینے کے قابل ہیں؟ تاہم انہوں نے ہمیں اسٹیل کی ایک پلیٹ دیدی جس میں اپنی شکل دیکھ کر ہم نے شیو کیا۔
قصہ مختصر دن میں جب ہم قندھار شہر دیکھنے نکلتے تو شہر کیا تھا کھنڈر تھا جس کی سڑکیں، ٹینکوں سے تباہ و برباد ہو گئیں تھیں جب کہ کوئی مکان کوئی دیوار ایسی نہیں تھی جو توپ کے گولوں اور رائفل کی گولیاں سے چھلنی نہ ہو گئی ہوں، سارے شہر میں ہو کا عالم تھا، تمام دوکانیں بند تھیں اور سڑکوں کو کوئی گاڑی نظر آتی تھی، جگہ جگہ جلے ہوئے ٹرک اور دوسری فوجی گاڑیوں کا ملبہ پڑا ہوا تھا، سارے شہر کی بجلی منقطع ہو چکی تھی، گورنر ہاﺅس میں بجلی جنریٹر کے ذریعے فراہم کی گئی تھی۔ اس سے پہلے ہم نے شاہ ظاہر کے دور میں جو قندھار دیکھا تھا وہ اس قدر خوبصورت تھا کہ دیکھنے والا دیکھتے دیکھتے نہ تھکے۔ مگر یہ قندھار بھوتوں کا مسکن لگتا تھا۔ ہر دوکان کے سامنے رسیوں سے لٹکی ہوئی لالٹین نظر آتیں ہمارے ساتھ جو گائیڈ تھا اور کوئٹہ کا پڑھا ہوا تھا نے بتایا کہ صاحب یہاں اب چورا چکاری بالکل نہیں ہوتی ہے مگر شہر میں سب سے زیادہ دکانیں دوکانوں کے دروازوں کے شٹر بنانے والوں کی تھیں۔ اس گائیڈ نے ہمیں بتایا کہ جب سے طالبان یہاں آئے ہیں مکمل امن و امان ہے اور لوٹ مار بند ہو چکی ہے، اس نے ہمیں آگاہ کیا کہ مجاہدین کے آنے سے چھ سات سال کا کوئی لڑکا یا لڑکی باہر نظر نہیں آتی تھی، اٹھا کر لے جاتے تھے اس نے ہماری معلومات میں مزید اضافہ کیا کہ جس دور میں عورتوں کو اٹھا کر لے جانے اور انہیں پاکستان میں فروخت کرنے کے واقعات عام تھے اب الحمدللہ یہ سب ختم ہو گیا ہے۔ مگر زمانے نے دیکھا کہ آنے والے وقت میں طالبان نے کیا کیا صرف نام تبدیل ہوئے۔ اس دورے میں ہی ہمیں طالبان کے خدوخال نظر آنے شروع ہو گئے تھے ہم ایک شاہراہ سے گزر رہے تھے ایک جگہ ایک بہت بڑا مجمع نظر آیا، معلوم ہوا کہ یہاں ایک مجرم کو سزائے موت دی جارہی ہے اور اسے شرعی طرےقے سے سر قلم کرکے سزائے موت دی جائے گی ہمارے ساتھ لوگوں نے یہ ”تاریخی“ منظر اور اسلامی نظام کا مشاہدہ کرنے کے لئے گاڑی کو رکوادیا۔ وہاں ایک آدمی جس کے دونوں ہاتھ پیچھے باندھ دیئے گئے تھے گھٹنوں کے بل بیٹھا ہوا تھا اور سر رقلم کرنے والا جلاد اس کے قریب کھڑا تھا، میں اس منظر کو دیکھنے کی تاب نہیں رکھتا تھا چنانچہ میں اس مجمع سے بہت دور چلا گیا کچھ دیر کے بعد نعرہ تکبیر اللہ اکبر کے نعوں سے فضا گونجنے لگی، میں سمجھ گیا کہ مجرم انجام کو پہنچ گیا، میں جب اپنے ساتھیوں کے پاس واپس پہنچا تو پتہ چلا کہ میرا ساتھی صحافی کا یہ منظر دیکھ کر پیشاب خطاہو گیا۔ لہذا پتہ چلا کہ کمزور مثانے والے سچے مسلمان نہیں ہوتے۔ (جاری)
نوٹ: یہ سلسلہ جاری رہے گا اور آنے والے وقت کی تصویر پیش کروں گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں