۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 313

کراچی مقبوضہ۔2

بھٹو جب اقتدار میں آیا تو اس نے جب اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑھ لئے تو سب سے پہلے اس نے سندھ کے اردو بولنے والوں کے قلع قمع کا فیصلہ کرلیا۔ یہ جو محفلوں میں نکلے الفاظ ہیں انہیں پان کھاﺅ اور ماکڑ جیسے الفاظ سے یاد کرتا تھا اور یہی کیا یہ تو قائد اعظم کو بھی ”کادو حجام“ کہتا تھا جو کہ اس کی گندی ذہنیت کی عکاسی کرتی تھی اسے اردو بولنے والوں سے کدورت یہ تھی انہوں نے پیپلزپارٹی کو ووٹ نہیں دیا خصوصاً کراچی والوں سے اسے شدید نفرت تھی اس نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ سندھ میں لسانی بنیادوں پر فساد کرائے اور صاف اردو بولنے والے بڑی تعداد میں تھے وہ ان عناصر کو کھلی چھٹی دے دی کہ وہ ان کے کاروبار اور جانوں کو نشانہ بنائیں تاکہ وہ وہاں سے نقل مکانی کر جائیں ان کے اپنے شہر لاڑکانہ کے علاوہ سکھر، شکارپور، خیرپور، نواب شاہ، جیکب آباد اور بیشتر علاقوں میں نفرت کے بیج بوئے اور قتل، غارت گری کا بازار گرم کیا ان کے ساتھ ساتھ اس نے اردو بولنے والے صحافیوں کو قتل کرانے اور انہیں ہراساں کرکے ہجرت کرنے پر مجبور کیا تاکہ ان کے سیاہ کرتوتوں کا بھانڈا نہ پھوٹ سکے اس طرح اداروں کو مجبور کیا گیا کہ وہ سندھی صحافیوں کو نوکریاں دیں جب کہ سندھی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا جو اردو بولنے والوں کے خلاف ماحول بنا رہا تھا جو طرح طرح سے نوازا گیا اور ان کی حوصلہ افزائی کی گئی جب کہ اس نے سندھی تاجروں کو کراچی جا کر کاروبار کرنے کے لئے کہا گیا اور ان پر دباﺅ ڈالا گیا کہ وہ اپنے کاروبارکراچی منتقل کریں خصوصاً لاڑکانہ کے کاروباریوں کو مجبور کیا گیا ان کے لوگوں کو اغواءکرایا اور دیگر حربوں سے دہشت زدہ کرکے کراچی جانے پر مجبور کیا گیا۔ بھٹو جانتا تھا کہ جب تک کراچی میں اردو بولنے والوں کی بالادستی رہے گی اس وقت تک سندھ پر اس کی گرفت مضبوط نہیں ہو گی لہذا اس نے سندھ کی طرح کراچی میں بھی ان عناصر کو مجبور کیا اور ان کی پشت پناہی جو کہ اس کے مقاصد کو پورا کر سکیں لہذا یہاںپٹھانوں پر ہاتھ ہلکا رکھا گیا تو لیاری میں جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی کرکے کراچی کے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی۔ پیپلزپارٹی نعرہ لگاتی تھی سوشلزم کا ایک انتہائی درجہ کی متعصب لسانی جماعت ہے اور جئے سندھ کی اندرون خانہ حلیف ہے اس نے ان کی پالیسی پر اندون خانہ عمل کرتے ہوئے سندھیوں کے علاوہ ہر ایک کو دوسرے درجے کا شہری تصور کیا خصوصاً اردو دان طبقے کو جو ان کی تابعداری اور جی حضوری کرنے سے انکاری تھے۔ بھٹو جو ایک جاگیردارانہ ذہن کا آدمی تھا جس کی پرورش میں اس ماحول میں ہوئی جہاں اپنے علاوہ کوئی دکھائی ہی نہیں دیتا جس کا باپ جونا گڑھ کا دیوان رہا ہو جس کی ساری زندگی انگریزوں کی نوکری کرے گزری اور جونا گڑھ کی حجری کرکے کہ وہ پاکستان سے الحاق کرنے جارہی ہے اور اس کا خزانہ ہڑپ کرکے سوئزرلینڈ میں جمع کرایا ہو اور انگریزوں سے وفاداری کا صلہ ”سر“ کا خطاب حاصل کرکے لیا وہ کیا ان تہذیب یافتہ پڑھے لکھے اردو دان طبقہ کو گوارہ کر سکتا تھا جو اپنا نقطہ نظر ببانگ دہل بیان کرنے کے عادی ہوں۔ لہذا اس نے انہیں دوسرے تیسرے درجے کے شہری بنانے کے لئے انگریزوں کی پالیسی پر عمل کیا اور ان کے مستقبل کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنا گیا ایسا منصوبہ جیسا کہ ہٹلر نے یہودیوں کے خلاف کیا تھا کیونکہ ہٹلر کے متعلق کہا جاتا تھا کہ وہ ہٹلر کی سوانح حیات ”فین کیمف“ کو اپنی بائبل کہتا ہے سو اس نے بھی اردو بولنے والوں کے لئے ایک ”ہولی کیسٹ“ کا منصوبہ تیار کیا کہ انہیں تعلیمی اور اقتصادی میدان سے باہر نکال دو ان کی اولادوں کے مستقبل کو تباہ کردو اور ان پر عرصہ حیات تنگ کر دو اس نے جہاں اعلیٰ سرکاری ملازمتوں پر بیٹھے پبلک سروس کمیشن کے ذریعے مقابلے کے امتحان کے بعد تقرریاں ہوتیں ہیں کو بالائے طاق رکھ کر براہ راست اسسٹنٹ کمشنر، ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ پولیس بھرتی کرنے کو متعارف کرایا جس کے نتیجے میں وڈیروں کے نا اہل اور نقل کرکے کامیاب ہونے والے بیٹوں، بھتیجوں اور سالوں کو نوکریاں دیں اور اس طرح پبلک سروس کمیشن کو ناکام بنا کر سول اور پولیس کی انتظامیہ میں اپنے لوگوں کو بھرتی کیا جو آہستہ آہستہ زینہ با زینہ اعلیٰ ترین عہدوں پر مسلط ہوتے گئے اس طرح کسٹم، امیگریشن، ایئرپورٹ، پولیس، شہری ہوا بازی اور عدالتی ملازمتوں میں صرف اور صرف سندھیوں کو داخل کیا اور ایک وفاقی وزیر کہ ایسے لوگوں کو بھرتی کرو جو سندھی اور صرف سندھی ہو پیپلزپارٹی کے وفادار ہوں۔ اس طرح بھٹو نے اس منصوبے کو اس کی بیٹی نام نہاد شہید بے نظیر نے بھی جاری رکھا اس نے گویا دو دہاری تلوار کی طرح قومی وسائل پر سندھیوں کو مسلط کیا جب کہ مالی وسائل اپنے شوہر کے حوالے کر دیئے۔ جس کا باپ قائد اعظم کو کھلی کھلی گالیاں بکتا تھا اور انہیں ایسے القابات سے نوازتا تھا جو کسی بھی شخص کے لئے قابل شرم ہوتے ہیں سو بھٹو، زرداری گٹھ جوڑ نے اس ملک کا بالعموم اور کراچی کا بالخصوص جنازہ نکال دیا آج صورت حال یہ ہے کہ سندھ کے جاہل، بدکردار، زانی اور لٹیرے وزارتوں پر براجمان ہیں جن کی شامیں شراب و شباب سے رنگین ہیں، ملازمتوں پر نا اہل اور راشی افسروں کی بھرمار ہے، تعلیمی اداروں میں وہ سندھی بیٹھے ہوئے ہیں جنہیں چار سطریں بھی لکھنی نہیں آتی ہیں اور ان کے ماتحت عالم فاضل اور پی ایچ ڈی میں تمام اعلیٰ عہدے اور پورا سندھ سیکریٹری ان سے پٹا پڑا ہے وہاں آپ کو کوئی غیر سندھی نظر نہیں آئے گا آپ کوئی کام بغیر رشوت کے نہیں کراسکتے۔ دوسرے صوبوں کے افراد کو سندھ کے جعلی ڈومیسائل کے ذریعہ لا کر زرکثیر لے کر ملازمتیں دی جاتی ہیں مگر اردو بولنے والوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ سیاسی رشوتوں کا بازار عام ہے۔ فضل الرحمان نے بھائی کو وفاق سے قرض لے کر کراچی سینٹرل کا ڈپٹی کمشنر لگایا جاتا ہے کہ وہ اردو اکثریتی آبادی کا ضلع ہے وہ ان سے نمٹے اور کراچی کی پٹھان آبادی کو اس کی پشت پناہی حاصل ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں