۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 139

کسوٹی

لندن جسے بڑے بوڑھے لندھن کہتے تھے اور اسے ولایت اور سمندر پار بھی کہا جاتا تھا، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جو لوگ لندن سے واپس آتے تھے تو خود کو لندن پلٹ لکھتے تھے۔ تو اسی لندن میں ایک عالمی شہرت کا ایک ہال ہے جسے رائل البرٹ ہال کہا جاتا ہے جس میں ہزاروں افراد سما سکتے ہیں تو اسی رائل البرٹ ہال تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، سب کی نظریں پردے پر گڑھی ہوئی تھیں، ہر ایک آنکھ اپنے پسندیدہ اسٹینڈ اپ کامیڈین کی ایک جھلک دیکھنے کو برقرار تھیں، چند لمحوں بعد پردہ اٹھا اور اندھیرے میں ایک روشن چہرہ جگمگایا جس کو دیکھ کر تماشائی اپنی سیٹوں سے کھڑے ہو گئے اور تالیاں بجا کر اپنے پسندیدہ کامیڈین کا استقبال کیا۔ یہ گورا چٹا آدمی مشہور کامیڈین امریکی اسٹینڈ اپ کامیڈین ایموفلپس تھا۔ اس نے مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ ہاتھ اٹھا کر اپنے چاہنے والوں کا شکریہ ادا کیا اور بڑی گمبھیر آواز میں بولا ’دوستو! میرا بچپن بہت ہی کسمپرسی کی حالت میں گزرا تھا۔ مجھے بچپن سے ہی بائیکس کا بڑا شوق تھا، میرا باپ کیتھولک تھا، وہ مجھے کہتا تھا کہ خدا سے مانگو وہ سب دیتا ہے، میں نے بھی خدا سے دن رات جاگتے اور سوتے میں خدا سے مانگنا شروع کردیا۔ میں جب بڑا ہوا تو مجھے احساس ہوا کہ میرا باپ اچھا آدمی تھا، لیکن تھوڑا سا بے وقوف تھا، اس نے مذہب کو سیکھا تو تھا لیکن سمجھا نہیں تھا لیکن میں سمجھ گیا تھا، اتنا کہہ کر ایموفلپس نے مائیکروفون اپنے منہ سے ہٹا لیا اور ہال پر نظر ڈالی تو دور دور انسانوں کے سر ہی سر نظر آرہے تھے لیکن ایسی خاموشی تھی کہ اگر اس وقت اسٹیج پر سوئی بھی گرتی تو شاید اس کی آواز کسی دھماکے سے کم نہ ہوتی، ہر شخص ایموفلپس کی مکمل بات سننا چاہتا تھا کیونکہ وہ کامیڈی کا بادشاہ تھا وہ مذاق ہی مذاق میں فلسفوں کی گھتیاں سلجھا دیتا تھا۔ ایمو نے دوبارہ مائیکروفون اپنے ہونٹوں کے قریب کیا اور بولا، میں بائیک کی دعائیں مانگتا مانگتا بڑا ہوا لیکن بائیک نہیں ملی، ایک دن میں نے اپنی پسندیدہ بائیک چرالی۔ بائیک چرا کر گھر لے آیا اور اس رات میں خدا سے گڑا گڑا کر معافی مانگی اور اگلے دن معافی کے بعد میرا ضمیر صاف ہو گیا، میں ہلکا پھلکا ہو گیا اور مجھے میری پسندیدہ بائیک مل چکی تھی اور میں جان گیا تھا کہ مذہب کیسے کام کرتا ہے۔ اتنا کہہ کر ایموفلپس خاموش ہوا تو پورا ہال قہقہوں سے گونج اٹھا اور ہر شخص ہنس ہنس کر بے حال ہو گیا اور کیا آپ جانتے ہیں اس لطیفے کو اسٹینڈ اپ کامیڈی کی تاریخ کے سب سے مشہور لطیفے کا اعزاز حاصل ہے۔ اتنا کہنے کے بعد ایموفلپس نے پھر مائیکروفون ہونٹوں کے قریب کیا اور بولا۔ اگر کسی مال دار شخص کو خدا سے معافی مانگتے دیکھو تو یاد رکھنا وہ مذہب سے زیادہ چوری پر یقین رکھتا ہے۔ اتنا کہہ کر ایموفلپس پردے کے پیچھے غائب ہو گیا اور لاکھوں شائقین ہنستے ہنستے رو پڑے کیونکہ یہ جملہ تھا جس نے سارے فلسفوں کی گھتیاں سلجھا دی تھیں۔
آج آپ ذرا اپنے معاشرے پر نظر دوڑائیے وہ تمام لوگ جن پر پاکستان میں کرپشن، پیسہ چوری، منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری اور معاشی دہشت گردی کے عدالتی کیس چل رہے ہیں وہ سب لوگ مکہ مدینہ میں قرآن پاک پڑھتے ہوئے، نمازیں پڑھتے ہوئے، جالیوں کو چومتے ہوئے اور ہزار طرح کی مناجاتیں کرتے نظر آئیں گے اور ان کی تصویریں کھینچی جارہی ہیں اور وہ پوز بنا بنا کر تصاویر پاکستان بھجوا رہے ہیں اور لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ ہم کتنے نیک اور مذہبی ہیں، ہم تو ہر لمحہ اللہ سے توبہ استغفار کرتے رہتے ہیں، لیکن بار بار ایموفلپس کا جملہ گونج رہا ہے ”کہ اگر تم کسی مال دار شخص کو خدا سے معافی مانگتے دیکھو تو یاد رکھنا وہ مذہب سے زیادہ چوری پر یقین رکھتا ہے“۔
جناب مستنصر حسین تارڑ کے کالم سے اقتباس کرتے ہوئے بات کو آگے بڑھاتا ہوں، ابھی حال ہی میں چوروں اور لوٹوں کی خرید و فروخت کے نتیجے میں مندرجہ بالا ”اوصاف خبیثہ“ کے حامل افراد کا جو ٹولہ برسر اقتدار ہے وہ اپنے معاملات طے کرنے کے بعد عازم مکہ مدینہ ہوا اور وہاں منہ بنا بنا کر اپنی تصاویر بنوائیں، ٹوپیاں پہنانے والوں نے ٹوپیاں پہن کر مقدس جالیوں کو چوما اور مکہ مدینہ میں اپنی موجودگی کا ثبوت دیتے ہوئے حاجی بابا بن گئے، ان کے کردار اور ان کے افعال دیکھ کر ایموفلپس کی باتوں پر یقین کامل ہو جاتا ہے، اسی ٹولے میں ایک نام نہاد مذہبی عالم بھی شامل ہے جس نے ہر دور میں اقتدار کے مزے چکھے اور سرکاری مراعات حاصل کیں، گو لقب اسے ڈیزل کا ملا مگر سرکاری مال پانی ڈکار کر وہ خود کو برگزیدہ بزرک تصور کرتا ہے اس کی دولت کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے گروہ کا ایک مولوی جو کراچی کے بنوری ٹاﺅن مسجد و مدرسہ کا مہتمم تھا جس کے مرنے ک ےبعد جب اس کی اولاد میں وراثت کا قضیہ کھڑا ہوا تو عدالت میں انکشاف ہوا کہ محض بینکوں کا س کا زر نقد ساڑھے پانچ ارب سے زیادہ ہے جب کہ دوسرے اثاثے اپنی جگہ ہوں گے اور اس ”عالم دین“ نے اپنے مرنے سے کچھ قبل عید قرباں کے موقعہ پر سب کے سامنے مظلومیت سے کہا تھا کہ ”اس کے پاس اتنی رقم نہیں ہے کہ قربانی کا جانور خرید سکوں“۔ یہ تو اس ”گینگ“ ایک ادنیٰ فرد کے اثاثے ہیں، اب تصور کریں کہ گروہ گھنٹال کا ”درجات“ کیسا ہوں گے، اس کا بھائی ”عالم دین“ جو اپنے دور میں وزیر سیاحت کے عہدہ جلیلہ پر ممتکن رہ چکا ہے اس کے پاس ایسی تفریح گاہ ہے جس میں عیش و عشرت کے سارے سامان مہیا ہیں اور حالیہ ”لوٹا کریسی“ کے دور میں مبینہ طور پر حکومت گرانے میں اربوں کے گھی کی کڑاھی میں سر تھا۔ اب ذرا ان ”علماءکرا“ کی ملاحظہ کیا جائے جو مساجد اور مدرسوں پر قابض ہیں، کروڑوں روپیہ کی گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں اور آگے پیچھے دسیوں کلاشنکوف والے ان کی حفاظت پر معمور ہیں، کوئی ان سے یہ پوچھنے کی جرات نہیں کر سکتا کہ یا شیخ یہ مال کہاں سے آیا؟ یہ جو کافر بنانے کی مہریں جیبوں میں لئے گھومتے ہیں، چشم زدن میں آدمی کو ”جہنم واصل“ ہونے کا فتویٰ لگا کر اس کو خاموش کر سکتے ہیں۔ یہ فساد فی سبیل اللہ کے محرک اپنی ساری ”بدکاریاں“ مذہبی لبادہ اوڑھ کر کرتے ہیں اور مذہب کا نام لے کر قوم کو تقسیم در تقسیم کے عمل میں مصروف ہیں، اپنی ذاتی مسلح افواج بنا کر یہ کرائے کے ”فوجیوں“ کا کردار ادا کررہے ہیں اور معقول ”حق المحنت“ وصول کرکے بادشاہ گر بنے ہوئے ہیں۔ ایک بار پھر ایموفلپس کے الفاظ یاد کیجئے، لطف آ جائے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں