۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 744

ہائے ہم کیا ہو گئے —- (2)

کراچی میں چونکہ سب ہی ”اعلیٰ نسب“ اور ”اونچی ناک“ والے تھے جو کہ صرف حکومت کرتے چلے آئے تھے سو انہیں ایسے پیشوں سے کرائیت تھی جو پٹھان، پنجابی اور دوسری قوموں کے لوگ کررہے تھے لہذا پٹھان جنہوں نے کراچی میں چوکیداری، لکڑی کی ٹالیں، بوٹ پالش اور محنت مزدوری کو اپنے پیشے بنا کر رزق حلال کما رہے تھے، خصوصاً ٹرانسپورٹ پر مکمل طور پر ان کی اجارہ داری تھی۔ اس سلسلے میں بسوں، ویگنوں وغیرہ کا سارا نظام انہی کے سپرد ہو گیا تھا۔ ان ٹرانسپورٹ کا عملہ جو کہ ان بغیر پڑھے لکھے، اجڈ اور کرخت لہجے والوں پر مشتمل تھا جنہیں سرحد سے لا کر متعین کیا جاتا تھا۔ یہ افراد جنہیں نہ بات کرنے کی تیز تھی، نہ اس بات کا شعور تھا کہ لوگوں سے برتاﺅ کیسے کیا جاتا ہے، اس طرح کراچی کا وہ طبقہ جو پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی میں ان ہی افراد کے رحم و کرم پر تھا، ان سے آئے دن الجھے رہتے تھے اور روز روز کے جھگڑے وطیرہ بن گئے تھے۔ اس طرح لوگوں میں ان کے خلاف شدید غم و غصہ تھا۔ اس طرح کراچی یونیورسٹی کی ایک طالبہ ایک تیز رفتار بس کی زد میں آکر ہلاک ہوئی تو اندر اندر پگھلنے والا لاوا پھٹ پڑا اور پٹھانوں کے خلاف تشدد آمیز کارروائیاں شروع ہو گئیں جس سے ان افراد نے فائدہ اٹھایا جو مہاجروں کی نمائندگی کا دعویٰ کرتے تھے اور حکومت اور دیگر استحصالی قوتوں کے مارے ہوئے عوام ان کے ساتھ ہو گئے اور اس سے ”ایم کیو ایم“ کو خود کو نمایاں کرنے کا موقعہ ملا گو کہ اس تحریک کا مقصد نیک تھا اور اس میں جو تعلیم یافتہ، باشعور افراد شامل تھے وہ خلوص دل کے ساتھ چاہتے تھے سندھ میں اُردو بولنے والوں کا استحصال نہ ہو اور ان کے جائز حقوق انہیں دیئے جائیں مگر انتہا پسند سندھیوں کے نزدیک یہ جماعت سندھ اور سندھیوں کے خلاف تھی گو کہ کوٹہ سسٹم کی تلوار سے اُردو بولنے والوں کے گلے کاٹے جارہے تھے ان کے پڑھے لکھے افراد پر نوکریوں کے دروازے بند کر دیئے گئے، ان کے قابل طلباءکو یونیورسٹیوں میں داخلے پر پابندیاں لگا دی گئیں۔ کراچی، حیدرآباد اور سکھر جہاں اُردو بولنے والوں کی اکثریت تھی کو سندھی شہری اور سندھی دیہی میں تقسیم کردیا گیا۔ سرکاری ملازمتوں میں یہ جملہ عام تھا کہ یہ ملازمتیں ”کراچی، حیدرآبد اور سکھر“ کے لئے نہیں ہیں جب کہ میرٹ نام کی چیز کا نام و نشان نہیں تھا۔ بھٹو نے بیوروکریسی میں سینکڑوں اُردو بولنے والوں کو بیک جنبش قلم برخواست کردیا اور سول اور پولیس سروس میں پبلک سروس کمیشن کے ذریعہ ملازمتیں دینے کے بجائے براہ راست بھرتیاں کی گئیں جن میں وڈیروں، اعلیٰ سرکاری سندھی افسران اور با اثر سیاستدانوں کے نا اہل لڑکوں کو بھرتی کیا گیا جو کہ آج انتہائی اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے ہوئے ہیں اور اپنے سے زیادہ نا اہل افراد کو نوکریاں دے رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ ایک جملہ جو ایک انتہائی اعلیٰ سیاستدان اور مرکزی وزیر سے ان گنہگار کانوں نے سنا کہ ”ایک غیر سندھی کو ملازمت دینا ایک سندھی کا قتل ہے“ لہذا اُردو داں طبقے کو ایم کیو ایم کی شکل میں اُمید کی کرن نظر آئی اور انہوں نے دامے، درمے، سخنے ان کی مدد کی اور ان کے ایک ایک اشارے پر اپنی جانیں قربان کرنے لگے۔ اردو داں دانشور اس جماعت کی حمایت پر آمادہ اس لئے ہوئے کہ یہ نوجوان افراد سیاست میں داخل ہو کر مہاجروں کے حقوق کے لئے جدوجہد کرے گی۔ چنانچہ انتخابات میں عوام نے ایم کیو ایم کے اراکین کو تعجب خیز اکثریت کے ساتھ کامیاب کرایا مگر اب یہاں بھی وہی زہر پھیلنا شروع ہو گیا جو حصول اقتدار کے بعد ان افراد میں سرایت کر جاتا ہے جنہیں لوگ اپنا راہنما، ہمدرد اور مسیحا تسلیم کر لیتے ہیں اس میں اب ایسے افراد داخل ہونے شروع ہو گئے جو اقتدار کے نشے میں چُور ہو کر خود کو فرعون بے سامان سمجھنے لگے اور خاص طور پر قائد تحریک جو ذہنی طور پر اتنے بالغ نہیں تھے کہ ایک ایسی قوت کی راہنمائی کرسکتے جو ان کے ایک اشارے پر گردنیں کٹوانے کے لئے تیار تھی اور ان کے ہر لفظ کو الہامی سمجھتی تھی۔ ان کے گرد بھی ایسے افراد جمع ہو گئے جو اپنی حرکتوں، لفاظی اور خوشامد میں انہیں یہ یقین دلاتے تھے کہ بعد از خدا بزرگ قوی قصّہ مختصر
لہذا انہوں نے اب ان مخلص کارکنوں، دانشوروں، ادیبوں، مشاہیر اور اہل علم کو نظر انداز کرنا شروع کردیا جو انہیں سیدھی راہ دکھانا چاہتے تھے۔ انتہا پسندی، تشدد اور تعصب سے دور رہنے کی تلقین کرتے تھے، لہذا یہ افراد آہستہ آہستہ ان سے دور ہوتے چلے گئے اور ایسے افراد اوپر آگئے جن کے اپنے مفادات تھے اور جو ”قائد“ کو یہ یقین دلاتے رہتے تھے کہ ”حضور جو فرما رہے ہیں یا کررہے ہیں وہی صحیح ہے“۔ ”قائد محترم“ نے بھی اپنے سے زیادہ نا اہل افراد کو سر چڑھانا شروع کردیا تاکہ ان کی نا اہلی، کم علمی اور کم عقلی پر پردے پڑے رہیں لہذا جن افراد کو اسمبلی کے ٹکٹ دیئے گئے اور جنہیں کہا گیا کہ یہ افراد ”گراس روٹ“ سے آئے ہیں لیکن مقصد ایک ہی تھا کہ وہ ان کے اشاروں پر ناچیں اور ان کے ہی ذہن سے سوچیں۔ ادھر اقتدار مطلق کے باعث ایم کیو ایم کے عہدیدار بے بہار اونٹ کی طرح چھولتے پھرتے اور پاگل ہاتھی کی طرح اپنوں کو ہی روندنے میں مصروف ہو گئے، حرص، دولت نے سب کو پاگل کردیا اور حکومتوں میں آنے کے بعد انہوں نے ”مہاجر کاز“ کو یکسر بھلا کر اپنی اپنی ذاتی جاگیریں بنالیں اور اپنے اپنے حلقوں میں وہ بے تاج بادشاہ بن گئے اس کے باوجود ”عوام کالانعام“ ان کے ساتھے اور ایک اشارے پر پورے صوبے کو جامد کرنے کی قوت رکھتے تھے لہذا وہ قوتیں جو کبھی کہتی تھیں کہ ”جیسے عوام الطاف حسین کے ساتھ ہیں اگر ہمارے ساتھ ہوتے تو ہم سندھ کو خودمختار ملک بنا دیتے“۔ انہوں نے اپنا کھیل کھیلنا شروع کردیا۔ انہوں نے پٹھانوں، پنجابیوں اور بلوچیوں کو سمجھایا کہ یہ ”پان کھاﺅ“ (مہاجروں کے لئے لقب) ہمیں سب کو ختم کرکے سندھ پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں بلکہ مجھ سے خود جی ایم سید نے کہا تھا کہ ”الطاف حسین کہتا ہے کہ پہلے پٹھانوں اور پنجابیوں کو نکال کر ہم اور آپ سندھ پر حکومت کریں گے“ لہذا اب وہ قومیں بھی مہاجروں کے خلاف ہو گئیں جو کبھی ان سے ہمدردی رکھتی تھیں۔ (جاری ہے)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں