۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 641

یرغمال قوم

22 کروڑ افراد، ایٹمی قوت، دنیا کی نمبر ون خفیہ ایجنسی، جمہوریت، اسلام کا قلعہ، ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار، مثالی عدلیہ، پارلیمنٹ، آزادی رائے، منہ توڑ جواب دینے کے دعوے، دشمن ہمیں نہ آزمائے، ہماری شرافت کو کمزوری نہ سمجھے، ہم ڈرتے ورتے نہیں، آہنی ہاتھ وغیرہ وغیرہ۔ کیسے کیسے دعویٰ ہوا میں اُڑ گئے۔ ”ایک چھوٹا گروہ“ مٹھی بھر افراد اور مذہب کے نام پر بہروپ بدلنے والوں نے پورے ملک کو یرغمال بنا لیا۔ کچھ عرصہ قبل فیض آباد میں دھرنے کا ٹریلر دکھانے والوں نے جنہیں ”دھرنا“ ختم ہونے پر ایک ایک ہزار روپیہ کی دھاڑی فوج نے پیش کی تھی اور اسے بہت بڑی جیت قرار دیا تھا آج انہوں نے پوری فلم دکھا دی۔ یہ وحشیوں کا گروہ نہ تو محبت رسول میں اپنی قوت کا مظاہرہ کررہا تھا، نہ ہی یہ احتجاجی مظاہرہ تھا، یہ ایک ایسا ڈراﺅنا خواب تھا جس نے ثابت کردیا ہے کہ دشمنوں کو اب ملک کی سرحدوں پر حملہ کرکے سبق سکھانے کی ضرورت ہے نہ ہی اپنے گولہ بارود ضائع کرنے کی، نہ ہی اپنے لوگوں کو مروانے کی بلکہ انہوں نے ”انہی صفوں“ دنیا کی ایک نمبر نام نہاد فوج اور سرفہرست رہنے والی خفیہ ایجنسی کی پشت پر ایک ایسی عفریت مسلط کردی ہے جو اس ملک کے ذہنی پس ماندہ مذہبی جنونی اکثریت کو استعمال کرکے اپنے مقاصد حاصل کرسکتے ہیں۔ اب بھی ان کوڑ چشموں کو نظر نہیں آرہا ہے کہ اس ملک کا برا چاہنے والوں نے وہ ہتھیار حاصل کرلیا ہے جو چشم زدن میں پورے ملک کو مفلوج کرکے رکھ سکتا ہے۔ انہوں نے وہیل چیئر پر بیٹھے ہوئے ایک مفلوج شخص کو سامنے لا کر سارے معاشرے کو منجمد کردیا۔ ساری آبادی کو سکتے کے عالم میں ڈال دیا۔ ایک عدالتی فیصلے نے یہ فیصلہ کردیا کہ سارے دعوے، ڈھونگ، ساری باتیں محض دیوانے کی بڑ، یہ سارا معاشرہ ایک اینٹ کی دیوار اور نفس بر آب ہے۔ کیا اب بھی کسی دانشور کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ”نیا پاکستان“ کا خواب دیکھنے والوں کو اب یہ ”پرانا پاکستان“ بھی صفحہ ہستی پر نظر نہیں آئے گا۔ یہ پیش گوئی کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے اب پرانی ہوچکی ہے اب ملک ہی نظر نہیں آرہا ہے۔ تبدیلی کے دعویٰ کے ساتھ ایک صفحہ پر ساری قوتوں پر ہونے کے دعوے کہاں گئے۔ وہ لوگ وہ نادان جو طوفان کی آمد سے بے خبر اپنے کانوں اور آنکھوں کو بند کئے ہوئے تھے۔ جو مذہب کے نام پر ہونے والی تخریب کاری کو عین عبادت سمجھتے تھے جو ایک گورنر کا قاتل کو شہید بنا کر اور اس کی قبر کو مرجع خلائق بنا کر خود کو اسلام کا حقیقی وارث سمجھتے تھے جو لال مسجد کے برقعہ پوش مولوی میں قرون اولیٰ کی شخصیت تلاش کرتے تھے، جو تحریک طالبان پاکستان کے خونخوار راہنماﺅں کو اسلام آباد میں جلسوں کی اجازت دے کر اپنی دانست میں سیلاب پر ریت کا بند باندھ رہے تھے جو غیر ملکی امداد کے ذریعہ فرقہ پرستی کا زہر گھولنے والوں پر نام نہاد کالعدم کا لیبل لگا کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اور پھر ان پر سے پابندیاں ہٹا کر انہیں من مانی کارروائیوں کی اجازت دے کر انہیں انتخاب میں شرکت اور کامیاب کراکر اپنا ووٹ بینک بنانے کی ترکیب کرنے والے، یہ اس تخریب کار خادم رضوی کی سرپرستی کراکر انہیں الیکشن میں ووٹ دلوانے والے کیا اس ملک کے وفادار ہیں۔ وہ لٹیرے غاصب حکمران جنہوں نے معاشی دہشت گردی کرکے ملک کو کھوکھلا کردیا ہے۔ جو اس طوائف ملوکی اور اس تباہی سے ایک روز قبل پارلیمنٹ میں اپنے شعلہ بار خطاب اور منہ سے زہر اگلنے والی زبان سے بڑی میٹھی میٹھی باتیں کررہے ہیں کہ وہ حکومت کو گرانا نہیں چاہتے وہ ہر آزمائش میں نئی حکومت کے ساتھ دیں گے۔ یہ بھیڑ کی کھال اوڑھے بھیڑئیے جو کل ایک متحدہ حزب اختلاف کی کانفرنس کرنے جارہے تھے اور پھر ایک ابن الوقت مذہب فروش کی قیادت میں جمع ہونے والے تھے یکدم ایک قدم پیچھے کیوں ہٹ گئے؟ کیونکہ ان کا جو مقصد تھا وہ اس گروہ نے پورا کردیا جسے ملک کے دشمنوں نے اس دن کے لئے تیار کیا تھا۔ کیا اب ان عقل کے اندھوں کو نظر نہیں آتا کہ عدالتی فیصلے کی ٹائمنگ کیا تھی؟ وزیر اعظم اس ملک کی پگڑی بنانے کے لئے اہم ترین دورے پر چین جارہے ہیں۔ ”سی پیک“ کے دشمنوں کے لئے اس سے بہتر کوئی موقعہ نہیں مل سکتا تھا کہ پوری دنیا کو یہ پیغام دیدیں کہ کہاں پھنس رہے ہو، کیسی سرمایہ کاری کررہے ہو، کن پتوں پر آشیانہ بنا رہے ہو، جہاں ایک ریاست کی رٹ ایک چھوٹا سا گروہ خاک میں ملا سکتا ہے جہاں نام نہاد مذہبی لٹیرے، غنڈے، قاتل اور لٹیرے پورے 22 کروڑ افراد کو ان کے گھروں میں مقید کر سکتے ہیں جہاں جہازوں کی آمدورفت، ریلوے نظام اور سڑکوں کو منجمد کر سکتے ہیں۔ یہ ایجنڈا نہ صرف دشمنوں کا ہے بلکہ اقتدار سے محروم افراد، چوروں، ڈاکوﺅں، لٹیروں اور غاصبوں کا بھی ہے جو اقتدار کے بغیر بن پانی کی مچھلی کی طرح تڑپ رہے ہیں۔
ذرا سا ذہن پر بوجھ ڈال کر یاد کرلیں 2007ءمیں ایک بیوی کے قاتل کے قتل کی شام کراچی میں کیا کچھ کیا تھا اور اقتدار حاصل کرکے ملک کے اعلیٰ ترین عہدے تک پہنچ گیا تھا۔ آج تو ایک نہیں سینکڑوں زرداری اس اقتدار کے حصول کے لئے اپنی روحیں تک شیطان کے ہاتھوں بیچ چکے ہیں۔ آج ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے جج واجب القتل کا فتویٰ حاصل کرکے سولی پر لٹکاﺅ کے لئے ہیں۔ آج ملک کا سپہ سالار اعظم کافر قرار دے کر اور 22 کروڑ افراد کو بلیک ہول میں قید کرکے اسلام کا نام بلند کررہا ہے۔ آج شیعوں، مسیحیوں، سکھوں، ہندوﺅں اور احمدیوں کے دلوںکی کیا حالت ہے۔ یہ کوئی بتائے گا کیونکہ اب کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں فریاد کی جا سکے، کوئی ایسا نہیں جسے داد رسی کی امید کی جا سکے اور کوئی جائے پناہ نہیں جہاں پناہ لی جا سکے۔ اب صرف قاتل ننگی تلوار لے کر اس سے ملک کی نئی تاریخ لکھ رہے ہیں جو کچھ ہی دن میں تاریخ کی کتابوں میں باقی رہ جائے گا۔ باقی رہے نام اللہ کا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں