۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 552

۔۔۔ اور اب #METOO

زمانے کے ساتھ ساتھ رسم و رواج، تہذیب و اخلاق، نیکی و بدی اور روایات بھی اتنی تبدیلی ہو جاتی ہیں کہ اگر 50 سال قبل کا بھی کوئی مردہ زندگی ہو کر اس جہان فانی میں آجائے تو مارے حیرت کے پھر مر جائے یا ایچ جی ویلز کی ٹائم مشین میں سفر کرنے والے ماضی سے مستقبل میں جائیں تو وہ بھی اصحاب کہف کے ان ایک برگزیدہ ساتھی کی طرح شہر میں تماشا بن جائیں جو اس زمانے کے لئے ایک عجوبہ بن گئے تھے۔ کبھی کبھی آدمی عجیب کرنے کے لئے بھی ہنر سیکھنا تھا کہ
عیب راہز باید
یعنی اگر آپ کوئی عیب کرنا چاہتے ہیں تو اس میں بھی آپ کو کیسا کمال حاصل کرنا ہوگا یعنی باقاعدہ آپ مکتب میں جا کر سیکھیں کہ عیب کیسے کریں کہ کس کو اس کی ہوا بھی نہ لگے اور پھر کہتے ہیں کہ جس کا عیب ظاہر ہو گیا تو داغدار ہوگیا۔ ساری دنیا اس پر تھو تھو کرتی ہے اور وہ بیچارہ نکوّ بن کر رہ جاتا تھا اور وہی نہیں بلکہ اس کی سات پشتون نک کو اس کے عیبوں کو بھگتنا پڑتا تھا۔ بعض علاقوں میں ایسے افراد کا حقہ پانی بند کردیا جاتا تھا کہ نہ کوئی شخص اس سے سماجی تعلق رکھے گا اور نہ ہی وہ کنواں سے پانی لے سکے گا یہ تھا وہ نظام جیسے احتسابی نظام کہنا چاہتے لہذا ایسے افراد کو نشان عبرت بنا دیا جاتا تھا اور پورا معاشرہ اس سے سبق حاصل کرتا تھا۔ یہ وہ معاشرہ تھا جہاں معیار شرافت دولت نہیں بلکہ دیانت، صداقت اور شرافت دلیل عزت سمجھا جاتا تھا لہذا ایسا فرد پورے معاشرے کے لئے قابل تقلید اور نمونہ بنا کر سب اس کی تقلید کرتے تھے اور یہی تمام مذاہب نے بھی دنیا میں پھیلایا اور خصوصاً مذہب اسلام میں سب سے پہلا اصول ہی دیانت، صداقت اور امانت کو قرار دیا مگر آج کے معاشرے میں کیا ہو رہا ہے نہ صرف سب سے بڑا گناہ گار صاحب عزت قرار پایا سب سے بڑا کاذب سچ کا نمائندہ سمجھا گیا سب سے بڑا غاصب کو امانت دار کی دستار پہنا دی گئی ان سارے عیبوں اور گناہوں میں بدترین عیب وہ اسفل ترین عمل تھا تو کوئی فرد جنس مخالف سے غیر اخلاقی عمل کرتا تھا، نہ مذہب اس کی اجازت دیتا تھا اور نہ کوئی معاشرہ اسے تسلیم کرتا تھا بلکہ تمام مذاہب میں اس گناہ کی سزا انتہائی عبرت ناک رکھی گئی تھی مگر واہ رے زمانے تیرے ڈھنگ نرالے ہیں پہلے ایسی باتیں اس طرح پوشیدہ رکھی جاتی تھیں کہ اگر اس کی ذرا برابر بھی بھنک کسی کو پڑ گئی تو قیامت آ جائے گی مگر اس ”تہذیب یافتہ“ دور میں صنف نازک کے لئے یہ بات باعث افتخار بن گئی کہ وہ اپنے ناجائز رشتوں کو طشت ازبام کرکے دنیا کی نظروں میں بڑی بہادر اور خواتین کے حقوق کی علمبردار کہلاوائیں۔ ان خواتین نے #METOO کی تحریک شروع کرکے بڑے بڑوں کے بھرکس نکال دیئے ہیں۔ دنیا کے بڑے بڑے سیاستدان، ارب پتی، کھرب پتی ایسے ایسے باجبروت حکمران جو کہ ”لرزہ بد اندام جہاں“ کا درجہ رکھتے ہیں اس ”دو حرفی“ الزام سے لرزاں ہیں اور جب ان پر یہ الزام لگتا ہے تو جو ذرا سی شرم رکھتے ہیں کونوں کھدروں میں روپوش ہو جاتے ہیں مگر بعض ڈھیٹ ایسے بھی ہیں کہ اپنی صفائی پیش کرتے ہیں اور مزید ذلیل و خوار ہو جاتے ہیں۔
امریکہ کا ایک چیف جسٹس اور اس کا حمایتی صدر ٹرمپ اس کی مثال ہیں۔ ادھر ہالی ووڈ میں ایسے ایسے جلیل القدر افراد #METOO کا شکار ہو کر پھڑپھڑا رہے ہیں، لوگ ان کی فلمیں دیکھنے سے انکاری ہیں جب کہ بالی ووڈ میں اس کے بڑے بڑے شکار بھی اپنی عزتیں بچانے میں ناکام ہیں بلکہ اب یہ ایک سماجی رتبہ بنتا جارہا ہے اور بعض لوگ ایسے ہیں جو تمنا کرتے ہیں کہ کوئی ان کے لئے بھی #METOO کردے مگر صاحب اللہ رکھے ہمارے دنیا سے پیارے ملک کو ساری دنیا میں تو صنف نازک کے صنف کرخت پر #METOO کے تیر چلائے بلکہ بالی ووڈ میں تو ایک نازک اندام نے دوسری نازک اندام کی طرح اپنی نازک انگلی اٹھا کر کہہ دیا #SheTOO مگر ہمارے یہاں بڑے بڑے تیز انداز، بڑے بڑے سورما، بڑے با ایں ریش دراز نے ایک اپنے ہم جنس کی طرف اپنی دسوں کی دسوں انگلیاں اٹھا کر کہہ دیا کہ #METOO۔ یہ سارے چور بھائی جو ایک ہی تیر کے گھائل ہیں اپنی ایک #METOO Confrence بلا کر اپنی اپنی بپتا سنانے کی تیاریاں کررہے ہیں۔ یہ سب کشتہ نیب ایک متحدہ ہو کر چلا چلا کر کہہ رہے ہیں کہ #METOO ایک چالاک مکار دانتوں کا نمائش کرنے والا کہہ رہا ہے کہ مجھے تو مجھے میرے دوستوں کو #TheyToo کیا جارہا ہے۔ میں نے ایک دوست سے پوچھا کہ فصل کیسی ہوئی تو اسے بھی۔۔۔۔؟ (وہ دوست گیارہ ارب کی چینی لے گیا۔ ایک کشتہ جو بللے“ مجھے کیوں نکالا؟ کا نعرہ لگاتا تھا اب اس نے بھی #METOO کا ٹیگ لگا لیا ہے جب کہ اس کا برادر، بھتیجے، بھانجے اور پورا ٹبر کا ٹبر یہی نعرے لگا رہا ہے اور سب سے بڑا مرحَہ یہ کہ ایک دراز ریش ملا جو کہ ڈیزل سے چلتا ہے اور سیاست میں بھی آلودی پھیلانے کا ماہر ہے اس ٹولے کا سربراہ بننے کا بھرم ڈال رہا ہے اس کی دم پر بھی پاﺅں پڑ گیا ہے۔
ملتان میں مسجد و مدرسے کے پلاٹ پر چالیس دکانیں بنا کر اربوں بنانے والا ”افغانستان“ کے لئے مال بھیجنے کے پر ٹپ لینے والا اپنے بھائی کو وزیر سیاحت بنوا کر اربوں اڑانے والا اور سعودی دوست سے ملک میں فرقہ بازی کو ہوا دینے والا، افغان طالبان کے نام کھربوں ارمیکہ سے وصول کرنے والا بھی اب #METOO ماتھے پر لگا کر سیاستدانوں کے گھروں کے چکر لگا رہا ہے مگر ساری ماہرین عمرانیات اس بات پر مستعجب ہیں کہ ساری دنیا کے برعکس اس ملک میں ایک ہی جنس اپنی ہی جنس پر #METOO کا الزام کیوں لگا رہی ہے اور اس اہم مسئلہ کو حل کرنے کے لئے ماہرین ”عمران نیات“ سر جوڑے بیٹھے نظر آرہے ہیں اور اس خطے کی روایات، حرکات و سکنات پر باریک بینی سے غور کررہے ہیں اس کا جو نتیجہ نکلے گا وہ واقعی چونکا دینے والا ہو گا کہ #HETOO بھی ہوسکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں