ٹورنٹو/شکاگو (محمد ندیم: پاکستان ٹائمز) جمعیت العلماءاسلام کا آزادی مارچ جو کہ لاکھوں افراد پر مشتمل ہے صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی سے شروع ہو کر ملتان ہوتا ہوا اب لاہور کی جانب رواں دواں ہے۔ آزادی مارچ کے شرکاء31 اکتوبر کو پاکستان کے دارالحکومت میں داخل ہو جائیں گے۔ مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ ہمارے کارکن پُرامن رہیں گے۔ مگر کون جانتا ہے کہ لاکھوں افراد کے ساتھ اسلام آباد میں داخل ہو کر وہ کارکن جو ہاتھوں میں لاٹھیاں اور کلاشنکوف اُٹھائے ہوئے ہیں۔ کوئی ایسی حرکت نہیں کریں گے جس سے امن و امان کا خطرہ پیدا ہو۔ بتایا جارہا ہے کہ چار ہزار کے لگ بھگ فرنٹیئر کور کے نوجوان کسی ناخوشگوار صورتحال سے نمٹنے کے لئے مامور کر دیئے گئے ہیں مگر آج کا سب سے بڑا سیاسی سوال یہ ہے کہ آزادی مارچ کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ حکومتی حلقہ اور ریاست کا کہنا ہے کہ کچھ نہیں ہوگا۔ انہیں یقین ہے کہ آزادی مارچ با آسانی اختتام پذیر ہو جائے گا اور عمران خان کی حکومت کا بال بھی بیکا نہیں ہوگا۔ تاہم اس بات کا خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی اصل جنگ فوجی جرنلوں کے ساتھ ہے اور لاکھوں کے مجمع کی موجودگی میں مولانا فضل الرحمن اسلام آباد میں کیا اعلان کرسکتے ہیں اور اس کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں۔ جیسا کہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ چند بیرونی طاقتیں مولانا فضل الرحمن کے غبارے میں پھونک بھر چکی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ لاکھوں کے مجمع کی اسلام آباد میں موجودگی کے دوران اگر کوئی بڑا واقعہ رونما ہو گیا تو اُس کے اثرات حکومت اور ملکی اسٹیبلشمنٹ پر کس طرح اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ کچھ کہنا قبل از وقت ہے کہ آزادی مارچ کے نتیجہ میں کچھ ہوگا؟ یا کچھ نہیں ہوگا؟
401