سال
سال گُزرتی ساعتیں روکے نہ رُک سکیں پَل بھر صدا یہ کان میں آئی کہ سال بیت گیا ہے برقرار […]
سال گُزرتی ساعتیں روکے نہ رُک سکیں پَل بھر صدا یہ کان میں آئی کہ سال بیت گیا ہے برقرار […]
بُخار دوائے حُجت و تکرار دستیاب نہیں وجودِ زعم سے زائل ہو کِس طرح یہ بُخار فتورِ عقل کا کوئی
وکیلِ عام نظام عدل میں ٹہرے وکیل عام سبھی غرورِ خُودسری میں کچھ سجھائی دیتا نہیں چلائیں ہاتھ وہ جن
گُل سما عمر نوخیز سنگ سارہوئی کس طرح دست قہر و وحشت سے خار زارِ جنوں میں کھلتے ہوئے اپنی
گردن کبھی ہے اغوا کبھی قتل و آبرو ریزی کہیں ہے چھین جھپٹ اور کہیں فساد بپا مرے وطن کی
بیماری عارضِ س±رخ و سپید اور گ±لابی آنکھیں کیسی رنگین بیماری سے ہیں بیمار بندھے حلقہِ آہنِ زنجیرِ ضمانت کے
حکمران اکڑ، غرور، تکبر، گھمنڈ کے آگے ڈرا ہوا نظر آیا حکومتی انصاف جو فردِ جرم بھی عائد ہے باوجود
مولانا رواں دواں ہے اگرچہ یہ کُوچِ آزادی سمیٹتے ہوئے دامن میں آپ عالم و دیں نکِل پڑے نہیں یُوں
خزاں ہمارے دِل کو ہمہ وقت گ±دگ±داتے ہیں کہ شاعرانہ طبیعت کو آزماتے ہیں خزاں کے رنگ برنگے ک±شادہ دامن
درندگی و سیہ کاریوں کے نقشِ قدم گلی، محلہ و بازار کی ہو راہ کوئی یہ کاروانِ ہوس کی کہیں