پہلے ایک قصہ ہو جائے۔ 1977ءمیں ایک ناول کیا بلکہ ایک حقیقی داستان سامنے آئی۔ جس کا نام تھا “THE ROOTS”۔ ایلک ہیلے جو ایک امریکی افریقی تھے انہوں نے یہ کتاب لکھی تھی جس میں اس کتاب کا ہیرو کونتا کانتے اپنی جڑیں تلاش کرنے کے لئے افریقہ کا سفر کرتا ہے اور طویل جدوجہد کے بعد اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اباﺅ اجداد افریقہ کے ملک گیمبیا سے تعلق رکھتے تھے اور اسے اور لاتعداد بچوں کو ایک جمعہ کے دن جب لوگ نماز جمعہ کے لئے گئے ہوئے تھے گوروں کے ایک جہاز میں گاﺅں سے پکڑ کر انہیں امریکہ لے آئے اور غلاموں کی منڈی میں انہیں فروخت کردیا گیا۔ بعدزاں ہمارا ہیرو اپنی جدوجہد کے ذریعہ بام عروج پر پہنچا اور اپنی “ROOTS” تلاش کرکے دنیا کے سامنے سرخرو ہوا۔
آج کے دور میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو اپنے اباﺅ اجداد سے ناواقف ہیں اور انہیں تلاش کرنے کی سعی بھی نہیں کرتے کیونکہ بہت سوں کی تو ولدیت نہیں نامعلوم لکھا ہوا ہوتا ہے۔ حال ہی میں ایک شخصیت سامنے آئی ہے یوں تو ایک قوم جو کہ حادثات زمانہ یا مفادات کے تحت کفر سے اسلام کی طرف آئی تھی۔ گاہ بگاہ اپنے “ROOTS” کے لئے چیخ و پکار کرتی رہتی ہے مگر “THE ROOTS” کے ہیرو کی طرح ان کا سفر تاریکی سے روشنی کی طرف نہیں بلکہ روشنی سے تاریکی کی طرف ہوتا ہے تو تازہ ترین شاہکار جس نے اپنے تانے بانے 5 ہزار میل سے پہلے کی طرف بنانے کا اعلان کیا ہے وہ ہے ”حاجی“ عدیل۔ ان حاجی کا بیان ملاحظہ فرمائیں۔
”ہمارا ہیرو محمد بن قاسم نہیں بلکہ راجہ داہر ہے جس نے اپنی سرزمین کا دفاع کرتے ہوئے جان دی ہمارے ہیرو وہ نہیں جنہوں نے اس سرزمین پر حملے کئے بلکہ ہمارے ہیرو وہ ہیں جنہوں نے اس سرزمین کا دفاع کیا۔ یہ حاجی عدیل ایک نمائندہ ہے اس قوم کا جو گاہ بگاہ اپنے مسلمان ہونے پر اظہار افسوس کرتی ہے اور اپنی ولدیت میں راجہ داہر کا نام لکھ کر خوش ہوتی ہے۔ آج ہم حاجی عدیل کو اس کے روٹس کے بارے میں بتاتے ہیں جو شاید اس کو بھی علم نہیں ہو گا اور یہ کام بھی ہمیں ہی کرنا پڑے گا کہ تمہارے اباﺅ اجداد کیا تھے اور واقعی تمہارے کردار سے پتہ چلتا ہے کہ تم ہی ان کی اولاد ہو۔
ابو بکر قدوسی یہ تحریر چشم کشا بھی ہے اور عبرت ناک بھی کہ کس طرح لوگ ایک فاسق فاجر بدکردار شخص سے اپنا رشتہ استوار کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ راجہ داہر ایسا شخص نہیں تھا کہ جس سے کوئی مہذب اور شریف (اگر ہو تو) اپنی نسبت جوڑ سکے اس کا اپنی بہن سے شادی کرنا تو مشہور و معروف ہے لیکن اس کے علاوہ بھی وہ کوئی ایسا انسان نہیں تھا کہ جس کے وجود پر سندھ کو فخر ہو۔ سندھ کا ایک بادشاہ تھا راجہ سالبی اس کا مذہب بدھ تھا۔ شریف اور بھلا آدمی تھا۔ آرام و چین سے حکومت کررہا تھا اس کی قسمت کی خرابی کہ ایک آدمی اس کے دائرہ جہاں میں داخل ہوا اس راجہ کا ایک وزیر تھا جس کا نام دیوان رام تھا، بہت لائق اور شریف لنفس انسان تھا۔ وزیر دیوان رام کے پاس ایک بار ایک نوجوان آیا جس نے اپنی قابلیت سے اسے اچھا خاصا متاثر کیا اس کا نام ”چچ“ تھا۔ یہ چچ خاصا ذہین اور موقع شناس آدمی تھا۔ ایک بار بادشاہ نے وزیر دیوان رام کو طلب کیا تو وہ نہ جا سکا اور طبعیت کچھ علیل تھی۔
اس نے اپنی جگہ چچ کو بھجوا دیا۔ یہ چچ کا جانا نہ تھا بلکہ بادشاہ کی موت تھی جو اسے بلا رہی تھی۔ جب چچ بادشاہ کے پاس پہنچا تو رانی اس کے پاس بیٹھی تھی۔ ہوس پرست رانی کو نوجوان چچ اچھا لگا اور اس کے بعد وہی ہوا جو ایسی کہانیوں میں ہوتا ہے۔ دونوں کی محل میں دوستی ہوئی جو غلام گردشوں سے گزرتی ہوئی، بستر کو سلوٹ سلوٹ کر گئی۔ چچ اور رانی نے مل کر بادشاہ کو ”فارغ“ کردیا۔ بادشاہ کی موت کے بعد دونوں نے باقاعدہ شادی کرلی یہ شادی اس وقت کے مذہب کے مطابق مکمل حرام تھی۔ کیونکہ برہمن میں بیوہ سے شادی حرام ہے۔ اور شادی بھی وہ جس کے پیچھے اعتماد کا خون اور قتل تھا۔
بہرحال اس ”حرام کاری“ کے نتیجے میں راجہ داہر پیدا ہوا (یعنی ”حاجی“ عدیل کا ہیرو) اس دوران چچ نے اپنی حکومت کافی وسیع کرلی۔ یاد رہے کہ راجہ داہر چچ کا چھوٹا بیٹا تھا۔ اس سے پہلے رانی کے بطن سے جئے سینہ بھی پیدا ہوچکا تھا۔ چچ نے اس دوران ایک جاٹ عورت سے بھی شادی کرلی تھی۔ جس کے بطن سے ایک بیٹی پیدا ہوئی تھی۔ اس کی پیدائش پر نجومیوں نے خبر دی کہ اس کا خاوند تمام سندھ کا بادشاہ ہوگا۔ خیر یہ بات آئی گئی ہو گئی لیکن جب لڑکی جوان ہوئی تو اس کا ایک رشتہ آیا، یہ بھاٹیہ کا قلعہ دار راجہ سوہن تھا جس نے جے سینہ سے اس کی بہن بائی رانی سے شادی کی خواہش کی۔ جسے سینہ نے رشتہ منظور کرلیا اور راجہ داہر کو پیغام بھیجا کہ بہن کو رُخصت کرنے کے انتظامات کئے جائیں کیونکہ بہن اس وقت پایہ تخت میں داہر کے ساتھ تھی۔ شادی کا جب زائچہ نکلوایا گیا تو وہی بات سامنے آئی کہ جو اس سے شادی کرے گا پورے سندھ کا بادشاہ ہوگا۔ اس پر راجہ داہر کو سلطنت کی فکر لگ گئی اور یہ خیال کہ شاید اس کی سلطنت چھن جائے گی۔ (جاری ہے)
