۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 547

“THE ROOTS” – 2

صاحبو، ہم حاجی عدیل کی حالت اسلام سے حالت کفر مراجعت کی خواہش کی تکمیل کے لئے ان کے اصل کی تلاش میں ان کی مدد کررہے ہیں۔ کیونکہ اس قوم کو جسے ان کے ” ان داتا“ اور نام نہاد ”شہید“ نے کوٹہ سسٹم کی بیساکھیوں کے تحت ذہنی اپاہج بنا دیا ہے، کو یہ خدمت ہمیں ہی کرنے پڑ رہی ہے کہ ان کے اباﺅ اجداد کی جڑیں تلاش کریں تو جب دہر کونجومیوں نے بتایا کہ اگر اس کی بہن کی شادی کسی اور سے کردی گئی تو اس کی سلطنت ختم ہو جائے گی سو اس نے اپنی سلطنت بچانے کے لئے آگے بڑھ کر اپنی ”بہن“ سے شادی کرلی جب اس کے بھائی جے سینہ کو یہ خبر ہئی تو وہ جوش غضب سے اپنے بھائی پر حملہ آور ہوا۔ لیکن راجہ داہر کی رسی ابھی دراز تھی جے سینہ ابھی دیبل سے باہر ہی تھا اور قلعہ کا محاصرہ کر رکھا تھا کہ چیچک کا شکار ہو کر مر گیا۔ داہر کی قسمت کہ کہاں اپنی بلکہ بھائی سلطنت بھی اسے مل گئی۔ اب وہ بلا شرکت غیرے تمام سندھ اور پنجاب کا حکمران تھا جس میں بہت سے علاقے راجھستان کے بھی آئے تھے۔ بہن سے شادی پر ردعمل بہت آیا لیکن لوگ خاموش ہو گئے۔ کچھ ہی دیر کے بعد سری لنکا سے عرب کو جانے والے جہاز پر داہر کے بندوں نے حملہ کیا اور مسلمان خواتین کو اغواءکرلیا اس کے بعد سب تاریخ ہے۔
اس مضمون میں نہایت اختصار سے اس خاندان کے عروج اور کرتوتوں کو سب کے سامنے رکھ دیئے گئے ہیں، یہ کوئی شاہی خاندان نہیں تھا بلکہ صرف دو نسلوں تک چلنے والا ایک چھوٹا شاہی خاندان تھا، پہلے باپ نے اپنے محسن کو قتل کیا اس کی بیوی سے ناجائز تعلقات استوار کئے، جن کے مذہبی رواج کے مطابق ”حرام“ شادی کی اس حرام کاری کے نتیجے میں دو بیٹے پیدا ہوئے، ان میں سے ایک نے اپنی سگی بہن سے شادی کی۔ اس قزاق داہر وزیر نے اپنی حرکتوں کے سبب حرام کاری کی کوئی جگہ نہیں چھوڑی۔ اس نے عرب خواتین جو مسلمان تھیں، اغواءکیا، یعنی یہ بدبخت ”زانی“ احسان فراموش ہونے کے ساھ ساتھ اغواءکار بھی تھا۔ اس بردہ فروش کے سبب ہی عرب یہاں نازل ہوئے۔
اب غور کریں کہ ایک طرف تو حاجی عدیل جیسے لوگ عرب حکمرانوں کو لٹیرے کہتے ہیں ور محمد بن قاسم کو ڈاکو کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ چلئیے یہاں یہ بھی تسلیم تو پھر یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ داہر ایک بدنسل، ناہنجار اور نالائق انسان تھا۔ جس کے باپنے پہلے سندھ دھرتی کے اصل حکمران کو ختم کیا۔ اس کے بعد ”خاندان“ کو لوٹا اس کے بعد حرام کاری کے نتیجے میں اس کے بیٹے داہر نے بھی حرام کاری کو جاری رکھا اور اپنی سگی بہن سے بیاہ رچا لیا لیکن جب عربوں کی خواتین پر ہاتھ ڈالا تو انہوں نے وہ ہاتھ ہی کاٹ دیا اور یوں خاندان صرف دو نسلوں تک چلا اور برباد ہو گیا۔ اب یہ سوال حاجی عدیل اور اس قماش کے افراد سے جو راجہ داہر کو اپنا اصل تسلیم کرتے ہیں اور خود کو اس سے منسلک کرکے مسلمانوں پر لعنتیں بھیجتے ہیں کہ کیا وہ اس نطفہ حرام داہر کو اپنا ہیرو مانتے ہیں؟ جس کے باپ نے اپنے محسن کے بستر سے غداری کی۔ جس کی ماں نے خاوند سے خیانت کی اور یہ ولد الحرام پیدا ہوا۔ کیا یہ دھرتی کا سپوت ہے یا دھرتی کا غاصب؟ کیا اس نے سندھ دھرتی کو عربوں کی غلامی میں دینے کا جرم نہیں کیا؟ محض اسلام سے مذہبی دوری اور تعصب کے سبب داہر کو ہیرو ماننے والوں کو اس پر غور کرنا چاہئے۔
اس قوم کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہ جیسے جیسے نام نہاد علم حاصل کرتے جارہے ہیں ویسے ویسے ہی اسلام سے دور ہو کر حالت کفر کی طرف جاتے نظر آتے ہیں۔ اس وجہ یہ ہے کہ سندھ پر ہندوﺅں کی حکمرانی رہی گو مسلمان اکثریت میں تھے مگر ان کے وڈیرے جاہل، عیاش اور ہندوﺅں کے ہاتھوں گروی رکھے ہوئے تھے۔ ہندو انہیں ان کی زمینوں کے گروی کرکے قرض دیتے تھے اور یہ ساری دولت اپنی عیاشیوں میں لٹا دیتے تھے جب کہ غریب غرباءاپنی لڑکیاں ہندوﺅں کے ہاتھوں گروی رکھ کر ان سے قرض حاصل کرتے تھے چنانچہ یہ ذہنی طور پر ہندوﺅں کے غلام تھے۔ بہت سی ذاتیں آج بھی اپنے سابقے ہندوﺅں کے ساتھ ملاتی ہیں، ان کا ہندوﺅں سے عاجزانہ اور غلامانہ رویہ تو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ ہندو انہیں اپنے برابر بٹھانا پسند نہیں کرتے تھے یہ ہندوﺅں کی دوکانوں میں جوتا پہن کر نہیں جا سکتے تھے، یہ ہندوﺅں کے طریقہ سے ہاتھ جوڑ کر انہیں سلام کرتے تھے۔ یہی نہیں بلکہ ہندوﺅں نے انہیں سماجی طور پر بھی دوسرے تیسرے نمبر کا شہری بنا رکھا تھا۔ ان کے علاقے پس ماندہ اور غربت کی تصوریں پیش کرتے تھے جب کہ ہندوﺅں نے اپنی قوم کو تعلیمی اور سماجی طور پر ایک بلند درجہ دے رکھا تھا۔
پاکستان بننے کے بعد جب ہندوستان سے یہاں مہاجر آئے تو ہندوﺅں کی طرح یہ سندھی مسلمان بھی انہیں حقارت سے پناہ گیر اور ماکڑ کے ناموں سے پکارتے تھے۔ ان نوواردوں نے ان کے ساتھ برابر کا سلوک کیا مگر انہوں نے کبھی انہیں دل سے قبول نہیں کیا ان کے سیاسی رہنماﺅں نے اپنے حصول اقتدار کے لئے نئے آنے والوں کو ان کے سامنے دشمنوں کے طور پر پیش کیا تاکہ ان با صلاحیت افراد کو اپنے زیردست رکھ سکیں چنانچہ سب کے سامنے ہے کہ سندھ کے جاہل اور تنگ نظر حکمرانوں نے ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا ہے۔ یہ آج بھی ذہنی طور پر ہندوﺅں کے غلام ہیں اور ہر بات پر ہندوستان کی طرف دیکھتے ہیں۔ ان کا ”سندھو دیش“ کا نعرہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے یہ ایک با رپھر راجہ داہر کو اپنا راہنما تسلیم کرکے ان سارے کرتوتوں کو اپنا رہے ہیں جو ولد الحرام راجہ داہر کر چکا تھا یہ آج بھی اپنی بہنوں کے نکاح قرآن سے کرکے ان کے حقوق غصب کرتے ہیں۔ یہ آج بھی کارا کاری جیسے قبیح فعل کے ذریعہ اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو قتل کرکے اپنے دشمنوں سے کارا کاری کا الزام لگا کر اپنے بیہیمانہ عزائم کی تکمیل کرتے ہیں یہ دولت کے پجاری اور کالی دیوی بھگت وہی سب کچھ کررہے ہیں جو خونخوار ہندو ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ کررہے ہیں، بہرحال حاجی عدیل کو ان کا راجہ داہر مبارک ہو۔ اب وہ جلدی سے ”حاجی“ کا لقب ترک کرکے کوئی ہندو نام اپنے نام کے ساتھ لگا لیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں