عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 277

اب چیئرمین نیب کو جگانے کی ضرورت ہے

اب یہ راز مجھ پر افشاءہوا کہ نیب کا چیئرمین ملکی خزانہ لوٹنے والوں کے لئے کسی بھی طرح سے جلاد سے کم نہیں اگر وہ چاہے تو وہ انہیں ملک کی لوٹی جانے والی رقم سمیت پاتال سے بھی گرفتار کر کے لا سکتا ہے۔ اس کام کے لئے انہیں نہ تو ملک کے صدر کی نہ ہی وزیر اعظم کی اور نہ ہی کسی عدلیہ کی اجازت کی ضرورت ہے اس کے لئے ان میں ہمت جرات اور بہادری کا ہونا بہت ضروری ہے اور مصلحت کی عینک کو اتارنا ہو گا اگر صرف نیب کا چیئرمین ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائے تو میں بڑے ہی دعوے کے ساتھ یہ بات کہوں گا کہ نہ صرف ہمارا ملک قرضوں سے آزاد ہو جائے گا بلکہ یہ دوسروں کو قرضہ دینے کے قابل ہو جائے گا اور ملک سے غربت کے ساتھ مہنگائی بھی دُم دبا کر بھاگ جائے گی اگر نیب کا چیئرمین خود کو حاصل اختیارات کی لاج رکھنا جانتا ہو اور ان اختیارات کو استعمال کرنے کی ان میں طاقت اور صلاحیت ہو تو یہ ملک کہاں سے کہاں پہنچ جائے گا؟
میں یہ ساری باتیں خیالوں کی یا پھر الف لیلیٰ کی کوئی داستان پڑھ کر نہیں بلکہ نیب کے قوانین کو پڑھ کر کہہ رہا ہوں یہ اختیارات نیب کے چیئرمین کے پاس اس وقت بھی تھے جب چوہدری قمر الزمان نیب کے چیئرمین تھے اور سپریم کورٹ نے اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو محض اس لئے سزا دے کر نا اہل کردیا تھا کہ انہوں نے توہین عدالت کی تھی اور سوئس حکومت کو خط نہیں لکھا تھا۔ 60 لاکھ ڈالر کی واپسی کے لئے۔۔۔ حالانکہ یہ کام نہ تو وزیر اعظم کے کرنے کا تھا اور نہ ہی عدالت کا۔۔۔ یہ کام صرف اور صرف نیب کے چیئرمین کے کرنے کا تھا۔۔۔ لیکن کیا ہوا، سب کو معلوم تھا کہ نیب کا چیئرمین کون ہے؟ اور وہ کس کا حمایت یافتہ ہے اس وجہ سے انہوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی اور قومی خزانہ لوٹنے والوں کا ایک طرح سے ان پر سہولت کاری کا الزام ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیب کے موجودہ چیئرمین کو ایسا کرنے میں کیا دشواری حائل ہے۔ وہ تو ایک جج رہ چکے ہیں وہ انصاف کرنا جانتے ہیں اور اختیارات کے استعمال سے بھی واقف ہیں انہیں کیا پریشانی لاحق ہے؟ انہوں نے اب تک بیرون ملک اپنے کتنے افسران کو لوٹے جانے والی رقم کی واپسی کے لئے کوئی اقدام کرنے کا حکم دیا؟ اگر ابھی تک نہیں کئے تو کیا وہ ایسا نہ کرنے کی وجوہات بتانا پسند کریں گے؟ کہ انہوں نے اب ملکی خزانہ لوٹنے والوں کے خلاف کیا کیا وہ ہمیشہ اندرون ملک ملزموں سے کی جانے والی ریکوری جو کروڑوں روپوں کی ہوتی ہے اس پر تو بڑے پرتپاک طریقے سے پریس کانفرنس کرتے ہیں اور شیخیاں مارتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر ان کا جو اصل کام ہے جس کے لئے یہ نیب بنائی گئی ہے۔ سابقہ چیئرمین نیب کی طرح سے وہ بھی نہیں کر پا رہے ہیں جس کی وجہ سمجھ سے باہر ہے حالانکہ ان سے قبل جو بھی چیئرمین نیب گزرے ہیں وہ سب کے سب داغی اور سیاست زدگان تھے مگر نیب کا موجودہ چیئرمین اس وبا سے پاک ہے ان کا ماضی بے داغ اور دامن صاف ہے اس کے باوجود ان کی جانب سے اس طرح کے اقدامات کا نہ کرنا خود سوالیہ نشان ہے اور اس پر حیران و پریشان ہونا بھی ایک فطری امر ہے کہ آخر وہ کیا وجہ ہے کہ جس کی وجہ سے ریٹائرڈ جسٹس جاوید اقبال بیرون ملک موجود لوٹی جانے والی رقم کی واپسی کے سلسلے میں بے بس نظر آرہے ہیں۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ان کی جانب سے ایسی کسی کوشش کی کوئی اطلاع یا خبر بھی کبھی نہیں آئی کہ نیب کے چیئرمین نے سوئس بینک میں رکھے 60 لاکھ ڈالر کی واپسی کے لئے کوئی کارروائی کی ہو یا لندن، دوبئی اور امریکہ سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں پڑے پاکستانی سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے اربوں ڈالروں کی واپسی کی کوئی کوشش کی ہو۔۔۔؟ آخر کیو؟؟؟ جب نیب کے چیئرمین نے وہ اختیارات استعمال ہی نہ کرنے تھے تو پھر انہیں دیئے ہی کیوں ہیں؟ کیا نیب کا کام صرف سیاستدانوں کو ڈرانا دھمکانا ہی ہے یا پھر ان سے لوٹی جانے والی قومی دولت کو برآمد بھی کروانا ہے اگر صرف نیب ہی حقیقی معنوں میں آئینی ادارہ بن کر ننگی تلوار کا کردار ادا کرتے ہوئے ہر رشتے کے لئے اجنبی بن جائے تو پاکستان خوشحال ہو سکتا ہے وہ قرضہ لینے کے بجائے قرضہ دینے والے ملکوں کی لسٹ میں آسکتا ہے اگر چیئرمین نیب اپنے اختیارات کی لاج رکھتے ہوئے اپنے حلف کی پاسداری کرے تو پاکستان سے غربت اشتہاری مجرم کی طرح سے روپوش ہو جائے گی اگر چیئرمین نیب اپنی طاقت کو سمجھے تو۔۔۔ اگر۔۔۔ صرف اور صرف اگر۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں