اللہ پاک نے کائنات بنائی۔۔ اور اس میں بے شمار اپنی نعمتوں سے انسان کو نوازہ، اس کائنات میں موجود اللہ پاک کی لاتعداد مخلوق آباد ہیں۔۔۔ اسلام انسان دوستی اور عظمت انسانیت کا علمبردارہے۔۔ اسلام نفرت اور قتل وغارت نہیں، امن ،سلامتی اور محبت کا درس دیتا ہے۔ سب انسان مٹی سے بنے ہیں۔اور حضرت آدم علیہ اسلام کی اولا ہیں۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق کسی بھی گورے کا کالے پر کالے کو گورے پر ،غریب کو میرا یا میرا کو غریب پر، کسی رنگ ،ونسل قوم ,علاقے کی وجہ سے کوئی فوقیت نہیں ہے۔۔ سب انسان برابر ہیں۔۔اللہ نے ان کو ایک ہی جان سے پیدا کیا ہے۔۔ کائنات میں موجود تمام مخلوق میں اشرف المخلوقات کا درجہ صرف انسان کو دیا ہے۔۔ اس میں کوئی شک نہیں اللہ پاک کے بنائی ہوئی کائنات کےہر نظام کو ایک نہ ایک دن ختم ہو جائے گا۔۔ اور پھر ایک نئی دنیا ہوگی۔۔ جو عارضی دنیا کے اعمالوں و حساب پر قائم ہوگی۔۔۔ اور وہ ہی حقیقی دنیا ہوگی۔۔اللہ پاک کی بنائی ہوئی دنیا میں انسان اپنی انسانیت کی وجہ سے سب سے اول درجہ رکھتا ہے۔۔ ایسا درجہ جو احساس کے اوپر انحصار کرتا ہے۔۔ اگر یہ احساس ختم ہوجائے تو انسان شیطان کی طرح عمل کرتا ہے۔۔ جس سے وہ شیطان کی طرح نظر آتا ہے۔۔ اس دنیا میں سب سے پہلے بننے والا رشتہ میاں بیوی ہے۔۔ جو اس دنیا کے سب سے خوبصورت رشتوں میں اولین ہے۔۔۔ اس کے بعد ہی دوسرے رشتے اس دنیا میں وجود میں آئے ہیں۔۔ ان تمام رشتوں میں مضبوطی محبت اور احساس سے ہی پیدا ہوتی ہے۔۔حالانکہ اپنے خونی رشتوں کے علاوہ بھی دوسرے لوگوں سے احساس اور محبت کے ساتھ عمل کرنے کا حکم ہے۔۔ احساس اور محبت صرف انسان تک محدود نہیں ہے۔۔ اس کی ضرورت دوسری مخلوق کو بھی ہے۔۔ اگر محبت کے بارے میں بات کی جائے۔ تو ہمارے معاشرے میں لوگوں کا پہلا تصور ہی ایک لڑکا لڑکی کے رشتہ کا آتا ہے۔۔ جو کے ایک منفی خیالات کے سبب ہے۔۔ حالانکہ اللہ پاک کی بنائی ہوئی ہر شےکو محبت کی ضرورت ہے۔۔ وہ محبت جو احساس جواچھے اخلاق پر قائم ہو۔۔اور انسان سے انسان اور دوسری مخلوق کے درمیان محبت اور احساس سے ہی تو رشتہ جوڑتا ہے۔۔لیکن افسوس آج کے جدید دور میں محبت اور اخلاق واحساس کو الگ الگ حصہ میں کر دیا ہے۔۔اگر محبت کی بات کی جائے تو ہمارے معاشرے کے لوگ اس لفظ کو صرف جسمانی نقطہ یا منفی خیالات یا مطلب پرست کی نظر سے دیکھے گئے۔۔ حالانکہ محبت بہت پاک لفظ ہیں۔۔ جو پاک احساس و جذبات پر ہی پھلتی پھولتی ہے۔۔ میری نظر میں محبت کی تعریف یہ ہے۔محبت کا احساس انسان کی نیت اور انسانیت پر موثر ہوتا ہے۔۔جس کا گہرا تعلق انسان کے عمل ساتھ ہے۔۔
تاریخ میں پہلی مرتبہ 19 اگست کو عالمی یوم انسانیت منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کی منظوری اقوام متحدہ کو جنرل اسمبلی نے 2008ءکے اہم اجلاس میں دی تھی۔۔ جس کے بعد مزکورہ دن کو منانے کے لیے اقوام متحدہ اور تمام ممبر ممالک کی سطح پر خصوصی اقدامات کیے گئے۔ اس دن کو منانے کا مقصد ان انسانوں کو خراج تحیسن پیش کرنے کا دن ہے۔۔ جو دوسرے ان انسانوں کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیتے ہیں۔۔ جن کے پاس کچھ نہیں ہوتا۔۔ دین اسلام کے مطالبے سے واضح ہوتا ہے۔ کہ اللہ کی محبت وہ لوگوں ہی حاصل کر سکتے ہیں۔۔ جو اللہ پاک کے بندوں سے اور دوسری مخلوق سے محبت کرتے ہیں۔۔ اللہ پاک اپنے ان بندوں سے بہت محبت کرتا ہے جو اس کی مخلوق کا دکھ درد محسوس کرتے ہیں۔۔ صرف خدا کی رضا کے لیے اللہ پاک کی مخلوق کی خدمت کرتے ہیں۔۔
دنیا کے تمام مذہب انسانیت سے محبت کا درس دیتے ہیں۔۔ اس کے باوجود دنیا میں انسانیت ختم ہو رہی ہے۔۔ آج کے دورمیں لاتعداد ایسے لوگوں ہیں۔۔ جو ظلم و ستم کی وجہ سے موت کی آغوش میں جا کر سو گئے۔۔ پر ان کی سسکیوں کا شور آج بھی محسوس ہوتا ہے۔۔ آج انسان مختلف صورت میں ایک دوسرے پر ظلم وستم کررہاہے۔۔انسان ہی ظالم انسان ہی مظلوم انسان ہی انسان دوست ہے۔ دشمن بھی انسان نے ہی اپنے جیسے انسانوں کی زندگی میں زہر گھولا ہوا ہے۔۔انسان ہی دکھ دیتا ہے انسان ہی دکھ بانٹتا ہے۔۔ ایک بات بڑی حیران کن ہے۔ سب انسان انسانیت کا دم بھرتے ہیں۔۔ پر عمل پیروی سے بہت کم نظر آتے ہیں۔دنیا بھر میں موجود ان اداروں کا جائزہ کرو،، جن کا تعلق سول سوسائٹی ، سیکولر،این جی ، ہے ان اداروں کے وجہ سے معلوم ہوتا ہے۔۔ انسان کی خدمت کرنا ہی اصل انسانیت ہے۔ دنیا کو کوئی مذہب اس بات کی تعلیم نہیں دے گا۔ کہ آپ مذہب کے نام پر کسی دوسرے انسان کو تکلیف دو۔ یہ تصادم کرو۔۔ کسی کے دکھ درد اور تکلیف کو صرف وہی سمجھ سکتا ہے۔۔ جس میں انسانیت ہو۔ انسان میں کب انسانیت نہیں ہوتی۔ جب وہ خود کو دوسرے انسانوں سے اعلی خیال کرے,غرورکرے,تکبر کرے,ایسے لوگوں صرف اپنے لیے جیتے ہیں۔ان کی زندگی کا مقصد اپنا آرام سکون ہوتا ہے۔ ایسے لوگ جانور سے بھی بدتر ہوتے ہیں۔۔ ایسے لوگوں میں احساس اور محبت سے بہت دور ہوتے ہیں۔۔ کسی کی تکلیف محسوس کرنا بھی ایک نعمت ہے جو اللہ پاک کے خاص بندوں کو عطا ہوتی ہے۔۔ ایسے انسان اس دنیا میں فرشتوں کی طرح ہوتے ہیں۔۔ جو اپنی خدمات سے ایک مثبت پیغام دوسرے لوگوں کو دیتے ہیں۔۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے ہیں۔۔ دنیا کا کوئی مذہب خدمت انسانیت کا درس صرف اپنے مذہب تک محددو کرنے کا حکم دیتا ہے۔۔اپنی زندگی کی کتاب انسان خود اپنے رویہ اور عمل سے لکھتا ہے۔۔وہ عمل جو اس کی سوچ اور ایک مثبت مثال پر قائم ہو۔۔ ایسے لوگ دوسرے لوگوں کے لیے بہترین مثال بنتے ہیں۔ ان کی زندگی کے امتحان اور اس میں دوسرے لوگوں کی خدمت،، ایسے انسان کو ہمیشہ چمکتے ہوئے ستارے کی طرح بنادیتی ہیں۔۔ جو مرنے کے بعد بھی اپنی خدمت سے دوسرے لوگوں کو اپنی خدمت کی روشنی دیتے ہیں۔۔ اپنی زندگی تو سب لوگ ہی جینے آتے ہیں۔۔ہے زندگی کا مقصد دوسروں کے کام آنا۔۔ اپنی زندگی سے کسی اور کو نئی زندگی دے جانا۔ یہ ہی زندگی کے خوبصورت معنی ہیں۔۔
1,531