عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 533

اور کوئی حل نہیں۔۔۔

پاکستان کا مستقبل کیا ہوگا؟ یہ وہ سوال ہے جس نے ہر اس شخص کی راتوں کی نیندیں حرام کردی ہے جو تھوڑا بہت بھی معاشیات کے بارے میں جانتا ہے اس لئے کہ ہمارے اخراجات ہماری آمدنی سے کئی گنا زیادہ ہیں اور ان اخرابات میں سود کی وہ بھاری رقم بھی شامل ہے جس کو نہ صرف دیئے بغیر کوئی چارہ ہے بلکہ اس بھاری سود کی وجہ سے ہمیں ہر تین سال بعد آئی ایم ایف کے سامنے بھکاری بن کر کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ یہ ہمارے بھکاری پن ہی کا نتیجہ ہے کہ آئی ایم ایف نہ صرف وزیر خزانہ اپنی مرضی کا لے آیا بلکہ وہ پاکستان کا بجٹ بھی اپنی مرضی سے بنا رہا ہے۔ اس ملک کا بجٹ جو ایک نیوکلیئر طاقت ہے اور جو اپنے خودمختاری کے گیت گاتے ذرا نہیں تھکتا۔
یہ تو بالکل اسی طرح سے ہو رہا ہے جیسے کسی علاقے کا مجرم اپنی پسند کا تھانیدار لگا دے جس کے بعد انہیں ان کی سرگرمیوں کے حوالے سے کسی طرف سے نہ روکے جانے کا ڈر ہو اور نہ ہی ٹوکے جانے کا۔ آئی ایم ایف بالکل وہی کھیل کھیل رہی ہے وہ پاکستانی روپے کی قدر اپنی مرضی سے مقرر کررہی ہے اور روزمرہ اشیاءکی قیمتیں بھی خود بڑھا رہی ہے۔ آئی ایم ایف کے اس طرح کے اقدامات عمران خان کی حکومت پر سوالیہ نشان بنتے جارہے ہیں۔ ابھی یہ بھی واضح نہیں کہ آئی ایم ایف کا ملکی معاملات میں براہ راست مداخلت کا یہ سلسلہ کہاں جا کے رکے گا؟ میرا ذاتی خیال ہے کہ عمران خان اس موجودہ صورتحال سے بالکل بھی خوش نہیں ہوں گے لیکن ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں، ان کی حکومت خارجی اور معاشی میدان میں بھی آگے بڑھ رہی تھی اور معاشی ٹائر کو بھی ملک دشمنوں نے پنکچر کردیا یعنی عمران خان کا ایک بازو ہی کاٹ دیا گیا وہ بازو جس سے وہ ملک کا ڈھانچہ تبدیل کرنے کی کوشش کررہا تھا وہ بازو ہی غیروں کے پاس چلا گیا جب کہ اس بدلتی صورتحال سے اس کے ذمہ دار سیاستدانوں میں ضرور خوشی کی لہر دوڑ گئی ہو گی جس کی وجہ سے وہ مہنگائی کو لے کر آئے روز عمران خان پر تنقید کرتے رہے ہیں حالانکہ اس کا سیدھا سادھا حل تو یہ ہے کہ سعودی عرب والا فارمولا استعمال کرتے ہوئے ان تمام عناصر کو گرفتار کیا جائے جنہوں نے ملکی خزانے پر ڈاکہ مارا ہے ان سے لوٹی ہوئی رقم لے کر آئی ایم ایف کے منہ پر مار کر ان سے آزادی حاصل کی جائے۔ ایسا کرنے کے لئے کسی بھی لمبے چوڑے قانونی اور عدالتی کارروائیوں میں جانے کی ضرورت نہیں بلکہ کراچی کے جعلی پولیس مقابلوں والا ڈاکٹر شعیب سڈل ڈاکٹرین کا استعمال کیا جائے۔
سیاست اور جمہوریت اور آئین کو ایک طرف رکھتے ہوئے یہ سارے اقدامات کئے جائیں، یہ ہی ایک راستہ ہے جس سے ریاست پاکستان کے کشتی میں ڈالے جانے والے شگاف کو بھرا جا سکتا ہے اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر اس کشتی کو ڈوبنے سے کوئی بھی نہیں بچا سکتا۔ اس لئے کہ قرض دینے والوں کی نظریں ہندو بنیے کی طرح سے آپ کے مکان یا آپ کے گھر کی لڑکیوں پر ہے جس طرح سے ہندو بنیا آخر میں قرض کے عوض یا تو مکان پر قبضہ کرلیتا ہے یا پھر قرض خوار کی بیٹی کو اپنا لیتا ہے۔ اسی طرح سے پاکستان کو قرضہ دینے والے سامراج کی زہریلی نظر پاکستان کے ایٹمی ری ایکٹر پر ہے وہ اس قرض کے عوض پاکستان کے ایٹمی ری ایکٹر کو ہتھیانہ چاہتا ہے وہ دنیا کے واحد ایٹمی قوت اسلامی ملک پاکستان کو ایک نمائشی ایٹمی طاقت بنانا چاہتا ہے۔ پاکسان کی پچھلی حکومتیں اس سازش میں سامراج کے ساتھ شامل رہی ہیں اسی لئے انہیں آئی ایم ایف سے قرضہ لینے میں کبھی بھی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ پاکستانی حکمرانوں اور پالیسی سازوں کے پاس وقت بہت ہی کم رہ گیا ہے۔ انہیں جو بھی کرنا ہے وہ وقت ضائع کئے بغیر ہی کرلیں اور ان اہم ترین اقدامات سے پہلے یہ ذہن میں ضرور رکھیں کہ ملک سب سے پہلے ہے، آئین قانون سیاست اور جمہوریت کی حیثیت ثانوی ہے اس لئے کہ ان تمام چیزوں کا وجود تب ہی ممکن ہے جب ملک ہو۔ مکان کی تعمیر کے لئے زمین کا ہونا ضروری ہے، مکان خلاءمیں نہیں بنایا جا سکتا۔ اس لئے اپنے اقدامات کی راہ میں آنے والے جمہوری قانونی اور آئینی تمام رکاوٹوں کو روندتے ہوئے اپنے ٹارگٹ کو حاصل کرنے کی کوشش کرنا ہوگی۔ اس لئے کہ معاملہ گولیوں اور ادویات کی سطح سے نکل کر سرجری تک پہنچ چکا ہے اور اب سرجری کئے بغیر پاکستان کو بچانا ناممکن ہوگیا ہے۔ اس لئے وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف قمر باجوہ کو چاہئے کہ وہ سعودی فارمولے کو اپناتے ہوئے ملکی خزانہ لوٹنے والے سارے عناصر کو نظر بند کردیں اور ان سے رضا کارانہ طور پر لوٹی ہوئی دولت واپس لیں، چاہے وہ ملک میں ہو یا بیرون ملک، اس لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کے لئے اقدامات کریں اور میڈیا کو شرانگیزی سے روکنے کے لئے بھی ضروری کارروائی کریں اگر ایسا نہ کای گیا تو پاکستانی کرنسی افغانستان سے بھی گر جائے گی پھر پاکستان میں ایک روٹی ہزاروں روپوں میں ملے گی اور مجبوراً حکومت کو ایک ایک لاکھ روپے کے کرنسی نوٹ چھاپنا پڑیں گے اس لئے اس طرح کی صورتحال کے آنے سے پہلے ہی کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا۔ اسی میں اسلامی ملک پاکستان کی سلامتی مضمر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں