امریکہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے کارنامے 315

اینٹی منی لانڈرنگ کا قانون اور ۔۔۔

پاکستانی سیاست عمران خان کے ہاتھوں عجیب مشکل میں پڑ گئے ایک اس طرح کی قانون سازی عمران خان نے خود ان سیاستدانوں کے ہاتھوں کروا ڈالی جس کی زد میں کوئی اور نہیں ان سیاستدانوں کی ہی غالب اکثریت آرہی ہے۔ میرا اشارہ اینٹی منی لانڈرنگ کے قانون کی جانب ہے جسے گزشتہ ہفتہ پاکستان کے دونوں ایوانوں نے متفقہ طور پر پاس کرلیا ہے جس کے بعد سے سیاستدانوں پر غشی کے دورے پڑنا شروع ہو گئے جس کے منہ میں جو آرہا ہے وہ اپنے ہی اداروں کے خلاف بکواس کررہا ہے۔ عمران خان نے جو کہا تھا وہ کر دکھایا، ان سیاستدانوں کے ہاتھوں خود ان کی قبر کھدوائی۔ اینٹی منی لانڈرنگ کا بل اور اس کی قانون سازی کوئی معمولی کام نہیں اسے اگر عمران خان کی حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس قانون کا تعل ریاست پاکستان کے سلامتی اور اس کی بقاءسے ہے ملک اس وقت سابقہ حکمرانوں کی کرپشن کی وجہ سے گرے لسٹ میں چلا گیا ہے اور گرے لسٹ میں رہنے کی وجہ سے پاکستان پر مختلف قسم کی اقتصادی پابندیاں بھی لگ سکتی ہیں اور ملک کو دیوالیہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے اس وجہ سے اس اینٹی منی لانڈرنگ کی قانون سازی ملک کے لئے بہت ہی ضروری تھی جس کا علم عام پاکستانیوں سے زیادہ خود ہمارے ان سیاستدانوں کو ہے لیکن اس کے باوجود یہ سیاستدان ہی اس اہم ترین قانون سازی میں کسی نہ کسی طریقے سے رخنہ اندازی ڈالنے کی کوشش کرتے رہے اس بار بھی ان ہی سیاستدانوں نے عمران خان کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی اس قانون سازی کے بدلے وہ حکومت سے نیب میں اپنے خلاف چلنے والے مقدمات کو ختم کروانے کی سودے بازی کرتے رہے مگر عمرانخان نے دو ٹوک انداز میں این آر او نہ دینے کا راگ دوبارہ الاپ دیا اور اس کے بعد ان سیاستدانوں کو کسی جانب سے ڈانڈا دکھایا گیا اور اس کے بعد وہ سب لائن پر لگ کر بل پر دستخط کرنے لگے۔
سیاستدانوں کے اس بارگیننگ کو دیکھ کر مجھے مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف کا یہ طنزیہ جملہ شدت سے یاد آگیا ”کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے“۔ یہ جملہ انہوں نے گرچہ کسی اور کے خلاف کہا تھا لیکن اس وقت تو خود ان کی جماعت پر پوری طرح سے صادق آرہا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں کے سیاستدانوں کی غالب اکثریت کو تو ایسے لگتا ہے کہ شرم چھو کر ہی نہیں گزری ہے۔ انتہائی بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ وہ ہر کام کے عوض معاوضہ مانگتے ہیں۔ کوئی کام بے لوث کرنے کے وہ عادی ہی نہیں، ایسی کسی قانون سازی میں شامل ہونا اپنی توہین خیال کرتے ہیں جہاں سے انہیں کوئی آسرا نہ ہو۔ اب اینٹی منی لانڈرنگ کے بل پاس ہونے کے بعد سے سیاستدانوں کی حالت غیر ہو گئی ہے۔ پہلے آل پارٹیز کانفرنس بلائی جس میں سب نے تقریریں کرکے دل کی بھڑاس نکالی، سب سے زیادہ خوفناک تقریر لندن سے یاں نواز شریف نے اپنے ہی اداروں کے خلاف کی اور ”مجھے کیوں نکالا“ کا ورد دوبارہ سے کیا انہوں نے تقریر کرکے اپنے ہی بھائی شہباز شریف کے سیاست میں مشکلات پیدا کردی ہیں اور اپنی بیٹی مریم نواز کے لئے راہیں ہموار کردی ہیں اور اداروں سے تصادم کے اپنے اسی پرانے بیانیہ کو انہوں نے دوبارہ دھرا دیا۔ اس طرح سے پاکستان کا سیاسی درجہ حرارت دوبارہ سے بڑھ گیا ہے۔ حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا بھی اعلان کر دیا ہے لیکن مولانا فضل الرحمن کے اسمبلی سے استعفیٰ دینے کی تجویز یا پھر رائے سے کسی نے بھی اتفاق نہیں کیا جس سے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن حکومت کے خلاف تحریک چلانے میں سنجیدہ نظر نہیں آرہی ہے بلکہ ہر کوئی اپنی کھال بچانے کے چکر میں لگا ہوا ہے۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے سیاست کررہا ہے۔ بھائی بھائی کے ساتھ اس وقت سیاست کررہا ہے۔ زرداری، نواز شریف کے ساتھ اور نواز شریف اپنے بھائی کے ساتھ سیاست کررہا ہے۔ بھتیجی اپنے ہی چچا کے ساتھ اس وقت سیاست کررہی ہے جب کہ ریاست خاموشی کے ساتھ اپنا کام کئے جارہی ہے۔ ریاست نے اپنی سلامتی اور خود مختاری سے متعلق قانون سازی ان ہی مفاد پرست سیاستدانوں سے کروالی ہے جس کی زد میں کوئی اور نہیں خود سیاستدانوں کی ہی ایک بڑی تعداد آنے والی ہے اس لئے کہ منی لانڈرنگ کا جرم تو سیاستدانوں کی اکثریت کرچکی ہے جس کا ثبوت مڈل ایسٹ برطانیہ اور امریکہ میں بڑی بڑی جائیدادوں کا خریدنا ہے غرض یہ ایک بہت بڑی قانون سازی ہے جس پر عمران خان مبارکباد کے مستحق ہیں اور ملک لوٹنے والے سیاستدانوں کے لئے یہ نوشتہ دیوار ہے انہیں پڑھ لینا چاہئے کہ ان کا برا وقت آگیا ہے اب جمہوریت مزید ان کے جرائم کے لئے ڈھال کا کردار نہیں ادا کرسکے گی اس لئے کہ عمران خان اور پس پردہ قوتوں نے بھی وہی جمہوری ہتھیار ملک کے دفاع میں استعمال کیا ہے جسے لٹیرے سیاستدان اپنے لوٹ مار کے لئے استعمال کرتے تھے۔ اداروں کے خلاف تقریر کرکے نواز شریف نے اپنی سیاست ختم کرکے خود کو بند گلی میں دھکیل دیا ہے اب ان کے پاس سیاست سے کنارہ کشی اور گمنامی کے اور کوئی چارہ ہی نہیں۔ انہوں نے خود ہی الطاف حسین والی انتہا پسندانہ راہ کا انتخاب کرلیا ہے تو اب کوئی کیا کر سکتا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ کسی بھی سزایاب مجرم کے ساتھ قانون کے مطابق جو سلوک کرتی ہے وہی سلوک نواز شریف کے ساتھ بھی کیا جائے اس طرح کا مجرم کسی رعایت کا مستحق نہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں