پاکستان میں جس طرح کی صورتحال ان دنوں چل رہی ہے یا پھر جس طرح کی غیر یقینی اور ظالمانہ صورتحال سے پاکستانی عوام ان دنوں دوچار ہیں اس کی نظیر پاکستان بننے کے بعد سے آنے والے تمام ادوار سے اگر کروائی جائے تو ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی۔ ضیاءکے دور کو پاکستان کا سب سے بدترین جابرانہ فسطائیت کا دور کہا جاتا ہے لیکن مجھ سمیت جن لوگوں نے وہ دور اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو گا تو وہ بھی چیختے ہوئے یہ ضرور کہیں گے آج کے دور کے لحاظ سے وہ دور پھر بھی بہتر تھا، کہیں نہ کہیں فریادی کی سنوائی ضرور ہوا کرتی تھی مگر آج کے دور میں فسطائیت دہشت گردی اور ظلم و جبر اور نا انصافی کے سارے کے سارے ریکارڈ ہی توڑ دیئے گئے یعنی کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اتنے جبر اور ظلم تو غلامی کے دور میں سات سمندر پار سے آنے والے حکمران بھی نہیں کیا کرتے تھے جتنا ظلم اور جبر اپنے ہی عوام کو غلام بنانے والے کررہے ہیں۔
غیر ملکی میڈیا اور تجزیہ نگاروں کے علاوہ دانشوروں کا یہ کہنا ہے کہ پاکستان کی عوام ایک طرف اور ان پر حکمرانی کرنے والی اقلیت ایک طرف کھڑی ہے۔ ملکی عوام انتخابات کا مطالبہ کررہی ہے۔ سپریم کورٹ انتخابات کروانے کا حکم دے چکی ہے مگر حکومت نے ملک کی سب سے بڑی عدالت کے حکم کو قدموں کی ٹھوکر بنوالیا اور ان کے طور طریقوں اور حیلے بہانوں سے کوئی اندھا بھی یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ حکومت اپنی عدلیہ کے ساتھ گیم کررہی ہے۔ حکومت اپنی عدلیہ کو بے وقوف بناتے ہوئے توہین عدالت کے جرم کا ارتکاب کررہی ہے، ملکی آئین اس وقت اپنے طبعی موت کی جانب بڑھ رہا ہے اور حکمرانی کرنے والوں اور ان کے سہولت کاروں کو اس کی بالکل بھی پرواہ نہیں، اسمبلیوں کے تحلیل کے 90 روز گزرنے کے باوجود الیکشن نہ کروائے جانے کی صورت میں نگراں حکومتیں غیر قانونی ہو جائے گی اور آئین ہچکولے کھانا شروع ہو جائے گا۔ آئین کے غیر موثر ہونے کی وجہ سے ادارے مدد پدر آزاد ہو جائیں گے اور کسی کو نہیں معلوم کہ کون کس کے ماتحت ہو جائے گا۔ ملک میں ایک آئینی بحران پیدا ہو جائے گا اس اہم ترین صورتحال پر کسی کی بھی نظر نہیں یا پھر دانستہ اس طرح کی صورتحال پیدا کی جارہی ہے تاکہ مداخلت کرنے والوں کو ایک اچھا جواز میسر آجائے۔ پاکستان اس وقت پوری طرح سے ”بنانا ری پبلک“ بن چکا ہے اور ملک پر ”گاڈ فادر“ یا پھر ”سسلین مافیا“ کی حکمرانی ہے جو لندن سے بیٹھ کر ڈوریں ہلا رہا ہے اور سب کو کنٹرول کرکے اپنے اشاروں پر چلا رہا ہے۔ ملک میں 1971ءسقوط ڈھاکہ والی صورت حال پیدا کردی گئی ہے۔ نفرتوں میں اضافہ ہو گیا ہے اور پہلے بنگالیوں کو دیوار سے لگایا گیا تھا، اب پختونوں کو دیوار سے لگایا جارہا ہے۔ دوسرے معنوں میں پختونستان کے لئے خود ہی راہیں ہموار کی جارہی ہے۔ یہ ایک خوفناک منصوبہ ہے اور اب اس خوفناک منصوبے کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پولیس والے اب دہشت گردوں سے مقابلہ کرنے کے قابل نہیں رہے، ان کی بندوقوں اور اسلحے سے اب بارود کے بجائے کرنسی نے نکلنا شروع کردیا ہے۔ اس لئے اب یہ طالبان یا کسی بھی دوسرے دہشت گردوں سے لڑنے کے قابل نہیں رہے۔ اسی وجہ سے اب یہ سرزمین یہ آئین سے خود کو بری الزماں کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں اور ویسے بھی خیبرپختونخواہ غیرت مندوں کی وفاداروں کو اور وطن پر جان قربان کرنے والوں کی سرزمین ہے ان کی ساری وفاداریاں ہی اپنے لئے اپنے خطے پر ڈرون حملے کرنے والوں کے خلاف آواز اٹھانے والے عمران خان کے ساتھ ہیں۔ اس لئے عمران خان سے وفاداری نبھانے اس کی جا کی حفاظت کرنے پر ملک کے غیور اور دلیر پختونوں کو غدار اور دہشت گردی کا خطاب موجودہ حکمرانوں کی جانب سے خاص طور سے مریم صفدر کی جانب سے دیا گیا یہ ایک بہت ہی خطرناک بات ہے۔ اس سوچ سے یقیناً پاکستان کی سلامتی خطرے میں پڑ چکی ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کو اس کا سختی سے نوٹس لینا چاہئے ورنہ پاکستان میں دوسرے سقوط ڈھاکہ کی پیدا ہونے والی صورتحال کو کوئی بھی نہیں روک سکے گا۔ اس پر اس نادان حکومت کے سہولت کاروں کو بھی ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کرنا چاہئے۔ اسی میں پاکستان کی سلامتی اور فلاح مضمر ہے۔
118