مستقبل کا پاکستان؟ 347

ایک عمران سب پر بھاری۔۔۔!

مارچ میں ہونے والے سینیٹ کے موجودہ انتخابات نے ایک طرح سے اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے غبارے میں سے ہوا نکال دی ہے اور ان کے اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے کے بیانیے کو دھواں بنا کر ہوا میں تحلیل کردیا ہے جو استعفیٰ دینے پر بضد تھے۔ وہی لوگ اب سینیٹر بننے کے لئے سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ یہ سیاست اور اس کے کردار بڑے ہی بے اعتبارے ہیں۔ موسم پر تو بھروسہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ بدلنے میں تھوڑا بہت وقت لے گا مگر سیاستدانوں پر تو اتنا بھی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا اور تو اور خود ان کی بیگمات اور بچے تک ان پر اعتبار نہیں کرتے اس لئے وہ انہیں ہر وقت ٹوکتے رہتے ہیں کہ ان سے سیاسی انداز میں بات نہ کریں یعنی دوسرے لفظوں میں گھر والوں سے سچ بولا کریں۔ ذکر سینیٹ کے الیکشن کا ہو رہا تھا، میں پچھلے کالم میں یہ عرض کر چکا ہوں کہ سینیٹ کے یہ الیکشن اور اس کے نتائج ملک کے سیاسی دھارے کا رُخ موڑنے کا باعث بنے گا یہ انتخابات اور اس کے نتائج کی بنیاد پر ہی ایک اس طرح کی عمارت تعمیر ہوتے جارہی ہے جو کسی کے لئے تو جیل کا درجہ رکھے گی اور کسی کے لئے محل کا۔۔۔ یہ ہی وجہ ہے کہ دیر آئے درست آئے کہ مصداق ہماری اپوزیشن کی سمجھ میں بات آئی گی کہ سینیٹ کے اس الیکشن کے میدان کو عمران خان کی پارٹی کے لئے خالی نہ چھوڑا اسی وجہ سے وہ بھی اس انتخابی دنگل میں کھود گئے اور وہ حکمران پارٹی کو
بلاکسی سہارے کے قانون سازی کے حق سے محروم کرنے کے لئے ہی پی ڈی ایم یعنی مولانا فضل الرحمن کے منشور سے ہٹ کر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں انہیں معلوم ہے کہ اگر عمران خان کی پارٹی سینیٹ کی اکثریت حاصل کر لیتی ہے تو پھر یہ دوسری تمام پارٹیوں کا ایک طرح سے اجتماعی موت یا پھر اجتماعی خودکشی ہو گی یعنی اگر ایک آنکھوں سے محروم لنگڑا شخص کسی آنکھوں والے سے لنگڑا ہونے کے باوجود لڑ رہا ہے اگر وہ دیکھنے کے قابل ہو جائے تو پھر اندازہ لگائیں کہ وہ کس طرح سے زیادہ پھرتی اور ہمت سے حملہ آور ہوگا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں عمران خان کو ٹف ٹائم دینے کے لئے انتخابی دنگل میں کود گئی ہیں اور اپنے اپنے گھوڑوں پر ہاتھ مار رہے ہیں کہ کوئی انہیں وقت پر دھوکہ نہ دے دیں اس لئے کہ یہ الیکشن ہار جیت سے زیادہ بقاءکی جنگ کی صورت اختیار کر گیا ہے یعنی اپوزیشن کی ساری کی ساری پارٹیاں سینیٹ کے اس الیکشن میں حصہ لے کر اپنے بقاءکی جنگ لڑ رہی ہیں۔ یہ اسی جنگ کا نتیجہ ہے کہ مسلم لیگ نون عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے دست بردار ہو گئی ہے جب کہ پی پی پی کی جانب سے مسلم لیگ ن پر دباﺅ تھا کہ وہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد دلائیں لیکن بعد میں مسلم لیگ ن کے ارکان میں ہی آپس میں اتفاق نہ ہو سکا اور یہ کہہ کر وہ اس عدم اعتماد کی تحریک سے دست بردار ہو گئے کہ یہ اقدام نواز شریف کے بیانیے کے خلاف ہے۔ ان تمام تر صورت حال سے یہ ہی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت اپوزیشن پارٹیاں ذہنی انتشار کا شکار ہے وہ اپنی جارحانہ سیاست سے نہ تو عمران خان کی حکومت اور نہ ہی اس کے پس پردہ متحرک قوتوں پر کوئی اثر ڈال سکے اس لئے وہ اب سینیٹ کے الیکشن کے ذریعے عمران خان کی حکومت اور اس کے پس پردہ قوتوں کو پریشان کرنے کے لئے حرکت میں آگئے ہیں، ادھر پیپلزپارٹی کے سندھ کی حکومت بھی خطرے میں آگئی ہے اور سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کی گرفتاری کا امکان بڑھ گیا ہے وہ اس وقت نیب کی جانب جاری کردہ پانچ ریفرنسوں کی زد میں ہیں اور کسی بھی ایک ریفرنس میں ان کی گرفتاری کا امکان ظاہر کیا گیا ہے کیونکہ نیب کے پاس ان کے خلاف بہت زیادہ ٹھوس شواہد اور وعدہ معاف آچکے ہیں اور سرکاری
ملازمین وزیر اعلیٰ کے خلاف حلفیہ بیانات تک قلمبند کروا چکے ہیں جس کے بعد اب مراد علی شاہ کا نیب کی زد سے بچ نکلنا نہ صرف مشکل ہے بلکہ نا ممکن بھی ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کو سگنل دیدیا گیا ہے کہ وہ سندھ حکومت کے لئے کسی نئے وزیر اعلیٰ کا انتخاب کرلیں جس کے بعد پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت میں غور و خوض کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ آخری خبروں کے آنے تک یہ بات ہی سامنے آئی ہے کہ سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ کے لئے ناصر شاہ کا انتخاب کرلیا گیا ہے اور اسی ہفتے سندھ اسمبلی کا ہنگامی اجلاس بلا لیا جائے گا جہاں مراد علی شاہ کے خلاف عدم اعتماد تحریک پیش کرکے نئے نیا قائد ایوان کے حیثیت سے نام شاہ کو چن لیا جائے گا۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ سید مراد علی شاہ اور پیپلزپارٹی کے ہائی کمان کے درمیان بعض معاملات پر شدید اختلافات پیدا ہو گئے ہیں اور مراد علی شاہ کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ دوسروں کے جرائم اور گناہ کی سزا کسی بھی صورت میں بھگتنے کو تیار نہیں، اس وقت ملک میں اپوزیشن پارٹیاں بہت ہی بری طرح سے انتشار کا شکار ہیں جب کہ عمران خان دور بیٹھے نہ صرف تماشہ دیکھ رہے ہیں بلکہ بانسری بھی بجا رہے ہیں اور سینیٹ کے الیکشن اور اس کے نتائج کا انتظار کررہے ہیں جسے وہ اپنے لئے اور ملک کے لئے امرت خیال کررہے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں