عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 580

بے خودی میں صنم

میری ذاتی خواہش ہے کہ نریندر مودی ایک بار پھر بھارت کا وزیر اعظم بن جائے، وہ اس لئے کہ ان کے بھارت کے وزیر اعظم ہونے میں بحیثیت پاکستانی خود کو محفوظ خیال کرتا ہوں جس راہ پر نریندر مودی بھارت کو لے جارہا ہے اس سے بھارت مضبوط اور توانا ہونے کے بجائے کمزور سے کمزور تر ہوتا جارہا ہے اور اپنے کمزور اور لاغر پڑوسی سے کوئی بھی خطرہ محسوس نہیں کرتا۔ نریندر مودی نہ جانے کس کے مشورے یا کس کے اشارے پر آگ سے کھیل رہے ہیں۔ وہ بجھتی ہوئی چنگاریوں کو پوری قوت سے ہوا دیتے ہوئے آگ کا شعلہ بنانے کی کوشس کررہے ہیں اور اس آگ سے بھسم ہو کر کوئی اور نہیں وہ خود ہی ہلاک ہو جائے گا۔ میں نے عرصہ قبل ان ہی کالموں میں اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی تعریف میں کالم لکھے تھے جب کہ ان دنوں پوری دنیا اور خود امریکہ میں ان کے جنگی اقدامات پر بہت بُری طرح سے تنقید کی جارہی تھی۔ اس وقت میں نے لکھا تھا یہ جو بش عراق اور اس کے بعد افغانستان کو کھنڈرات میں تبدیل کررہا ہے یہ دراصل دنیا بھر میں بکھرے ہوئے مسلمانوں کو متحد کررہا ہے۔ ان میں پائی جانے والی دوریوں کو ختم کررہا ہے اور اس کے بعد حالات اور واقعات نے یہ ثابت کر دکھایا کہ عراق اور افغانستان پر حملے کے بعد سعودی عرب میں سالانہ حج پر جانے والے حاجیوں کی تعداد دگنی ہو گئی تھی جن طالبان اور القاعدہ کے خلاف دہشت گردی کے حوالے سے پروپیگنڈہ کرکے مسلمانوں کو ان کے مذہب اور جہاد سے دُور کرنے کی کوشش کی گئی تھی وہ امریکی صدر بش کے ان اقدامات کے نتیجے میں ختم یا کم ہونے کے بجائے اور بڑھ گئی تھی اور اب جو میں نریندر مودی کے حق میں دعاگو ہوں کہ وہ دوبارہ سے بھارت کا وزیر اعظم بن جائے تو اس کے پیچھے بھی میری یہ ہی سوچ و فکر کارفرما ہے اس لئے کہ نریندر مودی کے دوبارہ وزیر اعظم بن جانے سے پھر بھارت کو اپنی تباہی و برباد کے لئے کسی باہر کے دشمن کی ضرورت باقی نہیں رہے گی بلکہ ان کے اپنے اقدامات ہی ملک کے لئے زہر قاتل سے کم ثابت نہیں ہوں گے۔
میں بڑے وثوق اور یقین کے ساتھ یہ لکھنے کی جسارت کررہا ہوں کہ اس وقت پورا ہندوستان دو حصوں میں بٹ چکا ہے۔ ایک طرف ہندو اور دوسری جانب دیگر تمام مذاہب کے ماننے والے ہندو حصے کی قیادت نریندر مودی اور ان کی جماعت کررہی ہے۔ جن کا منشور یا نصب العین ہی بھارت کے ہندوﺅں کو دوسرے تمام مذاہب پر غلبہ دلوانا ہے۔ دوسرے معنوں میں باقی مذاہب کے ماننے والوں کو ہندوﺅں کے زیر تسلط لانا ہے یہ وہ زہر یا وہ چنگاری ہے جو بھارت کو پہلے کمزور اور اس کے بعد اس کی تباہی کا باعث بنے گی۔ آئے روز جس طرح کے واقعات پورے بھارت میں کشمیری مسلمانوں اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ کئے جارہے ہیں یہ ہندو جارحیت کے مظاہر ہیں جسے نریندر مودی کی حکومت کی مکمل آشیرباد حاصل ہے اس سارے کھیل میں بھارتی میڈیا نریندری مودی کے اوّل دستے کا کردار ادا کررہا ہے بلکہ وہ ایک طرح سے نریندر مودی کا انتخابی مہم چلا رہا ہے جس کی وجہ سے نریندر مودی کے سارے سیاہ کرتوت ملکی عوام کو ان کے کارنامے دکھائی دے رہے ہیں اور ملکی عوام خاص طور سے ہندو عوام اسے اپنا ان داتا اور نجات دہندہ خیال کرتے ہیں اور مودی کی بھڑکیوں کے طفیل ہی وہ خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ خود نریندر مودی بھی اسی خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ وہ جس راہ پر قوم اور ملک کو لے جارہے ہیں، وہی اس ملک کے لئے بہتر ہے یعنی ملک کی اساس میں سے سیکولر کو نکال کر وہ صرف ہندو ہندو کی راگ الاپ رہے ہیں جس کی وجہ سے پورے بھارت میں خوف و ہراس کی فضا قائم ہوگئی ہے۔ ملک بھر میں رہنے والے تمما غیر ہندو خود کو غیر محفوظ خیال کررہے ہیں انہیں ہر وقت یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ ابھی کہیں سے ڈنڈا بردار جتہ آکر ان کے مال و اسباب کو لوٹ لے گا اور ان کی سنوائی بھی کہیں نہیں ہو گی یہ اس طرح کی صورتحال ہے کہ ایسی حالت تو بٹوارے کے وقت بھی بھارت کی نہیں تھی جو اب مودی کی مہربانی سے پیدا کردی گئی ہے۔
ہندو ووٹرز بھی خود کو مضبوط اور دوسرے مذاہب پر غلبہ پانے کے لئے مودی کو ووٹ دینے پر مجبور ہو گئے ہیں اور شاید یہ ہی مقصد بھارتی پالیسی سازوں کا بھی تھا۔ میرے خیال میں وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب ہو گئے اور مودی کی پارٹی اس متوقع انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہو جائے گی اور اس طرح سے نریندر مودی دوبارہ بھارت کے وزیر اعظم بن جائیں گے اور میری بھی یہ خواہش ہے کہ نریندر مودی کو ایک موقع اور ملنا چاہئے تاکہ وہ اس کسر کو پورا کردیں جو وہ اپنے ابتدائی دور حکومت میں نہ کرسکے تھے۔ ابھی بھارت کچھ کچھ نمودار ہورہا ہے۔ مودی کے دوبارہ وزیر اعظم بن جانے سے کرہ ارض پر بھارت دنیا کا سب سے بڑا ہندو ملک ہونے کی حیثیت سے ابھر جائے گا اور یہ ہی بھارت کا سب سے بڑا یوٹرن ثابت ہوگا جو بھی ہو ہمیں بحیثیت پاکستانی ایک غیر لڑاکا پڑوسی چاہئے جو ”جیو اور جینے دو کی“ پالیسی پر چلے اور خطے میں اس کی وجہ سے بدامنی نہ ہو اور کسی طرح سے کشمیری سمیت دوسری قومیں ہندوﺅں کے تسلط سے آزاد ہو جائیں اس لئے مودی سے کہتا ہوں ”منا بھائی، لگے رہو“۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں