عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 527

جسٹس بمقابلہ حکومت

پاکستان میں ان دنوں جسٹس بمقابلہ حکومت کا خطرناک کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ جسٹس کی حمایت میں ان سیاسی پارٹیوں کا میدان میں آکر تحریک چلانے کے اعلان نے صورت حال اور بھی خراب کر دی ہے جن پارٹیوں کے سربراہوں کے اپنے مستقبل کا دارومدار اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں پر منحصر ہے اس وجہ سے کوئی اندھا اور ان پڑھ آدمی بھی یہ بات با آسانی سمجھ سکتا ہے کہ ملک کی سیاسی پارٹیاں کیوں جسٹس کی حمایت میں عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی تیاری کررہی ہیں جب کہ جن جسٹس صاحبان کے حق میں یہ سارا گورکھ دھندہ کیا جارہا ہے، کیا اس صورتحال کے بعد انہیں انصاف جیسے منصب پر بیٹھنے کا کوئی حق ہوگا؟ ظاہر ہے کہ اس طرح کی صورتحال سے خود اعلیٰ عدلیہ بھی سوالوں کی بوچھاڑ میں آ جائے گی اس لئے کہ ججوں کو سیاسی نہیں ہونا چاہئے، ججوں کے سیاسی ہونے سے ان کے فیصلوں میں پھر انصاف کا شائبہ بھی کسی کو نظر نہیں آتا۔ حکومت کی جانب سے بعض ججوں سے متعلق ریفرنس جوڈیشل کمیشن میں بھجوائے گئے ہیں جو قانون اور آئین کے عین مطابق ہے۔ اس حکومتی کارروائی کے بعد سے جوڈیشل کمیشن کے عمل کو روکنے یا اسے سبوتاژ کرنے اور اسے سیاسی و متنازعہ بنانے کی غرض سے میڈیا سے ایک یلغار شروع کرادی گئی اس سارے شور شرابے سے خودبخود ان الزامات کی تصدیق ہو رہی ہے جو ان ریفرنس میں معزز ججوں پر لگائے گئے ہیں اس لئے کہ دھواں وہی سے اٹھتا ہے جہاں کہیں آگ لگی ہوئی ہو۔ حکومت نے تو ریفرنس کے ذریعے الزامات ہی لگائے ہیں ابھی جوڈیشل کمیشن میں اس کی انکوائری اس کی سماعت ہونا باقی ہے۔ فریقین کو صفائی کا موقع دیا جائے گا اور یہ سارا عمل سپریم کورٹ کے معزز ترین جج صاحبان ہی کریں گے پھر کس بات کا رونا رویا جا رہا ہے، کیا متاثرہ ججوں کو اپنے پیٹی بندھ جج بھائیوں پر بھروسہ نہیں یا معاملہ کچھ اور ہے؟ میرے خیال میں جوڈیشل کمیشن سے بھاگنے کا تاثر متاثرہ ججوں کی ساکھ کو خراب کرنے کا باعث بن رہا ہے ان کے حق میں میڈیا کا واویلا مچانا اور وکلاءبرادری اور اپوزیشن پارٹیوں کے تحریک چلانے کی دھمکی دینا بھی ان ججوں کے دامن پر لگنے والے دھبوں کو صاف کرنے میں کوئی سودمند ثابت نہیں ہو رہا ہے۔ خاص طور سے حدیبیہ پیپر ملز کیس کے ملزمان کا اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا بہت سارے سوالات کو جنم دینے کا باعث بن رہا ہے۔ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ ان ریفرنس سے متعلق کچھ بھی آجائے لیکن اس ساری صورتحال کے نتیجے میں جو پتے کھل چکے ہیں اس سے ساری کہانی لوگوں کے سامنے آگئی ہے۔ کون کس کی اور کیوں حمایت کررہا ہے۔ اس سارے فسانے میں انصاف کہیں گم ہو کر رہ گیا ہے۔ بظاہر سارے کا سارا جھگڑا اور فساد ہی انصاف کے نام پر کیا جارہا ہے اور الزام لگایا جارہا ہے کہ حکومت جرات مند اور بہادر ججوں کا صفایہ کررہی ہے لیکن جو لوگ حمایت کررہے ہیں وہ تو سب کے سب آپس میں مفادات کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ یہ ججوں کی حمایت کرکے ایک طرح سے خود کو محفوظ اور مضبوط بنانے کی کوشش کررہے ہیں جن کی حمایت کی جارہی ہے انہیں بھی ساری حقیقت کا علم ہے لیکن چونکہ انہیں بھی اس حمایت کی کسی حد تک ضرورت ہے اس لئے کہ ان پر لگنے والے الزامات کا دفاع انہیں دستاویزی شہادتوں کی موجودگی میں مشکل نظر آرہا ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ جس طرح کی سیاست جسٹس بمقابلہ حکومت کےنام سے اپوزیشن پارٹیاں کررہی ہیں اس کا انجام کیا ہوگا؟ میں کسی ایک جج کی حمایت یا مخالفت میں یہ نہیں لکھ رہا ہوں، میں تو مجموعی طور پر پورے ادارے یا نظام کی بات کررہا ہوں اس موجودہ صورتحال سے عدلیہ کا پورا نظام ہی متاثر ہو رہا ہے جب اعلیٰ عدلیہ کے جج ہی ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کے بجائے ایک دوسرے کو شک بھری نگاہوں سے دیکھیں گے تو دوسرے عام لوگوں کا کیا حال ہوگا؟ کس طرح سے عدالتوں اور اس میں بیٹھے معزز ججوں کو دیکھیں گے؟ ہم نے تو یہ بھی سنا تھا اور پڑھا تھا کہ دنیا بھر میں ”جج خود نہیں بولتے بلکہ ان کے فیصلے بولتے ہیں“۔ لیکن یہاں پاکستان میں تو اس طرح کا تاثر آرہا ہے جیسے میڈیا وکلاءاور سیاسی پارٹیوں کو اپنی حمایت میں استعمال کرتے ہوئے حکومت وقت پر دباﺅ ڈال رہے ہیں کہ وہ ان کے خلاف بھجوائے جانے والے ریفرنس واپس لے لیں یہ تاثر پیدا ہو گیا ہے اس میں کہاں تک اور کتنی صداقت ہے یہ تو اوپر والا ہی جانتا ہے۔ لیکن زبان خلق پر تو یہ ہی بات عام ہو گئی ہے کہ یہ اچانک پاکستانی میڈیا وکلاءبرادری اور اپوزیشن پارٹیوں کو کیا ہوگیا ہے؟
وزیر اعظم عمران خان کو چاہئے کہ وہ اس موجودہ صورتحال میں سب سے سپریم کورٹ بار اور ملک کی دوسری باروں کو وزراءکے ذریعے اینگیج کرکے حکومت پر بڑھنے والا دباﺅ کو کم کریں اگر اپوزیشن کوئی تحریک چلانا بھی چاہتی ہے تو اس کو روکنے یا اسے زائل کرنے کے لئے منصوبہ بندی کریں۔ صورتحال کو آئین اور قانون کے مطابق حل کریں، کسی کو بھی انصاف سے کھیلنے اور اس کا خون کرنے کی اجازت نہ دیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں