امریکہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے کارنامے 731

جمہوری گورکھ دھندہ

پاکستان میں سیاست نے ایک اس طرح کے کاروبار کی صورت اختیار کر لی ہے کے جس میں جس طرح کا چاہے سودا ہو اسے بہ آسانی فروخت کردیا جاتا ہے۔ وہ چاہے سینیٹ کے الیکشن میں اراکین اسمبلی کی خرید و فروخت کا سودا ہو یا پھر عدلیہ اور فوج مخالف بیانیہ کا سودا ہو، اس طرح کے سودے کی فروخت کو ہی پاکستانی سیاست میں سب سے بڑا ”آرٹ“ یا ”کاریگری“ خیال کیا جاتا ہے۔ اس وقت پاکستان کی پوری سیاست ہی اس شعبدہ بازی کے گرد گھوم رہی ہے۔ سیاستدان جو کسی بھی ملک میں اپنی قوم کے رول ماڈل ہوتے ہیں وہ اپنی قوم میں انسان سازی کے فرائض سر انجام دیتے ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں سب کچھ اس کے برعکس ہو رہا ہے یہاں پوری قوم کو اپنے ذاتی پسند اور ناپسند کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے۔ پوری قوم کے سامنے جس طرح کے بیانیے کو فروخت کرنے کا دعویٰ کیا جارہا ہے اس سے قوم کو اپنی ہی عدلیہ اور اپنی ہی فوج سے متنفر کروایا جارہا ہے۔ اس طرح کا زہریلا بیانیہ ملک دشمنوں کا تو ہو سکتا ہے لیکن ملک کے خیر خواہوں کا نہیں اس طرح کی تمہید اس لیے باندھ رہا ہوں۔ ملک کسی صورت حال ہی کچھ اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ جہاں کسی بھی طرح غیر متوقع واقعہ رونما ہونے کا ہر وقت امکان پیدا ہو گیا ہے۔ اعلیٰ عدالتوں کو اپنے وقار کے لئے توہین عدالت قانون کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ صورت حال کی سنگینی اور غیر یقینی ہونے کا اندازہ اس صورتحال سے بھی بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ کو قسم کھا کر یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ان کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں، یہ سب اداروں کی تباہی کی ابتدائی علامات ہیں جس کے ذمہ دار وہ سیاست دان ہیں جو اس طرح سے فوج اور عدلیہ مخالف بیانیوں کا سودا کھلے عام فروخت کررہے ہیں۔ ساری قوم کو معلوم ہے کہ جو سیاستدان اس طرح کا سودا فروخت کررہے ہیں وہ قومی خزانے کو کھربوں کا نقصان پہنچا چکے ہیں جن کے مقدمات تیزی کے ساتھ اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہے ہیں، وہی قومی لٹیرے نما سیاستدان اس طرح کے بیانیوں کا سودا فروخت کرکے ایک طرح سے اعلیٰ عدلیہ اور فوج کو بلیک میل کررہے ہیں کہ وہ ان کے خلاف چلنے والے ان مقدمات کو روک دیں یا پھر ان میں انہیں کلین چٹ دے دیں ورنہ وہ اس طرح سے جلسے جلوس کرکے پوری قوم کو ان دونوں ملکی اداروں کے خلاف سڑکوں پر لے آئیں گے۔ یہ ایک طرح سے کھلی دھمکی اور کھلی بغاوت ہے، وہ سیاستدان ملک کے نا خواندہ ووٹروں کو بے وقوف بناتے ہوئے اپنی پارلیمنٹ کو اور قانون سازی کے عمل کو محض اپنے تحفظ کے لئے استعمال کررہے ہیں اب بھی سینیٹ کے اس الیکشن میں اراکین اسمبلی کی خرید و فروخت میں کروڑوں روپے کی انویسٹمنٹ کا مقصد سینیٹ میں اپنی برتری حاصل کرنا ہے تاکہ وہ اپنا چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین لا سکیں اور اس کے بعد وہ جس طرح سے چاہے قانون سازی کرکے آئین کے دو دھاری تلوار کے ذریعے عدلیہ اور فوج کے پر کاٹنے میں کامیاب ہو سکیں اس سارے گورکھ دھندے کا مقصد ملک کے تمام اداروں کو غلام بنانا ہے تانکہ کوئی بھی ادارہ کسی سیاستدان کا احتساب نہ کرسکے۔ یہ سیاستدان عوامی ووٹوں کے ذریعے پارلیمنٹ میں اس لیے نہیں جاتے کہ وہ اپنی عوام یا ملک کی بہتری کے لئے کوئی قانون سازی کریں ان کا پارلیمنٹ میں جانے کا مقصد محض اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ مستحکم کرنا ہے اور وہ اس طرح کی قانون سازی کررہے ہیں کہ کوئی ایک بھی ملکی ادارہ سیاستدانوں کے خلاف آزادانہ طور پر احتساب کرنے کے قابل نہ رہے، وہ پورے نظام کو پارلیمنٹ کے ریمورٹ کنٹرول کے ذریعے چلانا چاہتے ہیں اور پارلیمنٹ کو ہر طرح کے چیک اینڈ بیلنس کے عمل سے آزاد رکھنا چاہتے ہیں اسی وجہ سے سینیٹ کے موجودہ الیکشن میں کھلے عام ہارس ٹریڈنگ کی گئی ہے جس کی بازگشت اندرون ملک سے زیادہ بیرون ملک سنی گئی ہے اسی لیے میری سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار سے مودبانہ گزارش ہے کہ وہ اس سلسلے میں بھی کوئی سوموٹو ایکشن لیں اور اس طرح کے سارے گندے انڈوں کو ایوان بالا سے باہر نکال پھینکیں جو دھاندلی اور بے ضابطگی کے ذریعے محض دولت کے بل بوتے پر ایوان بالا تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور ان اراکین اسمبلی کو تاحیات سیاست کے لئے نا اہل کریں۔ جنہوں نے روپے لے کر اپنی وفاداری کا کاروبار کیا۔ قانون سازی کے عمل کو قومی اداروں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے اس ناپسندیدہ کھیل کو فوری طور پر روکا جائے اگر اس سلسلے کو یہاں فوری طور پر نہ روکا گیا تو ملک میں انارکی پھیل جائے گی اور خود جمہوریت اور سیاست ہی ملک اور اس میں رہنے والوں کی تباہی و بربادی کا باعث بن جائے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں