نہ جھکا، نہ ڈرا، نہ بکا، کون؟ 172

جوڑ توڑ بلیک میلنگ اور پاکستان؟

پاکستان میں اس وقت آخر کس طرح کی سیاست ہو رہی ہے یا پھر کی جارہی ہے کہ جس میں بالواسطہ یا پھر براہ راست طور پر اعلیٰ عدلیہ کو بھی ملوث کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کو ہتھیار بنانا کن کا وطیرہ یا پھر محبوب مشغلہ ہے۔۔۔؟ ان کو زیربحث لانا میرا مقصد نہیں ہے مگر اتنا ضرور لکھے بغیر نہیں رہ سکتا جو عدالتی انگاروں کو ہوا دے کر شعلہ بنانے کا کھیل کر اپنے مخالفین کو اس سے برباد کیا کرتے تھے وہ اب خود بھی اسی عدالتی چنگاریوں کا نشانہ بن گئے ہے اور اب وہی لوگ دوبارہ سے عدالتی چلیدہ کارتوسوں کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کو متنازعہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں اس پر تو خود معزز عدالت کو ہی نوٹس لیتے ہوئے اس ”ڈرٹی گیم“ کو اس کے شروع ہوتے ہی شٹ اپ کال دینا چاہئے تھا مگر افسوس کہ وہاں سے بھی کسی خاص طرح کا ردعمل سامنے نہیں آیا۔ عدالت کے محاذ کو بعض عناصر استعمال کرتے ہوئے اپنے سیکورٹی فورسز کو بلاوجہ بدنام کرکے راتوں رات شہرت حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں، یہ ایک انتہائی خطرناک کھیل ہے، یہ کوئی سیاست یا جمہوریت یا پھر آزادی اظہار رائے نہیں ہے اور نہ ہی کسی بھی مہذب معاشرے میں ایسا کرنے کی کسی کو اجازت ہے لیکن یہ ریاست پاکستان ہے جس میں ہر کوئی مدرپدر آزاد ہے۔ کوئی کسی کو نہ روکنے والا ہے اور نہ ہی ٹوکنے والا۔۔۔
اگر کبھی کوئی ریاستی ادارہ حرکت میں آ بھی جاتا ہے تو پھر اس طرح کے عناصر جمہوریت کو خطرہ ہے کہ سلوگن کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست بھی بڑی ہی عجیب و غریب ہے جب سیاستدانوں کے پاس بیچنے کے لئے کوئی چورن نہیں ہوتا ہے اور ان کی قمبولیت کا گراف نیچے آنا شروع کردیتا ہے تو پھر وہ اس طرح کے متنازعہ اسکینڈلز کے ذریعے خود کو زندہ رکھنے کی کوشش کرتے ہ یں، وہ کاریگری کرتے ہوئے اس طرح کی ویڈیو مارکیٹ میں لاتے ہیں کہ جس سے ملک کے حساس ادارے متنازعہ اور خود مظلوم بن جائیں۔
اس وقت اعلیٰ عدلیہ کے سابق جج کی ویڈیو اس سے پہلے ایک سابق چیف جسٹس کا بیان سامنے آنا، یہ سب کیا ایک ہی سلسلے کی کڑیاں نہیں ہیں، پاکستانی سیاست میں سب کو معلوم ہے اعلیٰ عدلیہ سے اس طرح کے نازک ترین رشتے قائم کرنا کس سیاسی جماعت کا وطیرہ اور محبوب مشغلہ رہا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کو اپنی طرح سے کرپٹ بنوا کر ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتے ہوئے ان کی ویڈیو بنوا کر بعد میں انہیں بلیک میل کرنا کس کی عادت رہی ہے یہ سب کو معلوم ہے کہ کس طرح سے عدلیہ کے ذریعے اپنے مخالفین کو بھاری سزائیں دلوانا اور جسٹس قیوم کی ویڈیو کا مارکیٹ میں آنا بھی سب کو معلوم ہے۔ اس جوہ سے اس ”ڈرٹی گیم“ کا سلسلہ اب بند ہو جانا چاہئے۔ اس لئے کہ اس گندی ترین سیاست سے ملکی پوری دنیا میں جگ ہنسائی کا باعث بن رہے ہیں جس سے وطن عزیز کی پوری دنیا میں رسوائی ہوئی ہے اسی طرح سے عدلیہ کے بعد کچھ دوسرے سیاستدان اور بعض میڈیا پرسن گھوم گھام کر اپنی سیکورٹی فورسز کو کسی نہ کسی بہانے ہدف تنقید بنانے کی کوشش کرتے ہیں اس لئے کہ پاکستان میں راتوں رات شہرت پانے کا سب سے آسان ترین نسخہ اپنی سیکورٹی فورسز پر بلا کسی ثبوت کے کسی بھی طرح کے الزامات لگا دے اس کے بعد ملکی میڈیا سے زیادہ غیر ملکی میڈیا اسے ہاتھوں ہاتھ لے کر ملک کے سب سے بڑے بہادر شخص کا خطاب دے دیتا ہے۔ یہ بہت ہی پرانا طریقہ واردات ہے اور اب اس فارمولے کی نہ تو اتنی اہمیت رہی اور نہ ہی اس کا اتنا اثر رہا ہے مگر ہمارے ہاں کے عوام سے مسترد شدہ یتیم سیاستدان پھر بھی کبھی کبھار اس فارمولے کا استعمال کرتے ہیں ہر کسی کا مقصد شہرت کے علاوہ اقتدار کے لئے راہوں کا ہموار کرنا ہے ہر کسی کو یہ غلط فہمی ہو گئی ہے کہ انتخابات ووٹنگ جلسہ جلوس سب کے سب ڈھونگ ہیں، اقتدار اس طرح کے کھیل تماشے سے نہیں ملتا بلکہ اقتدار کے لئے کچھ اور پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ دراصل ہمارے ہاں کے سیاستدانوں کو کچھ اور کرنا آتا ہو یا نہیں لیکن انہیں جوڑ توڑ اور بلیک میلنگ کے تمام گر آنا چاہئے بلکہ اس میں تو انہیں پی ایچ ڈی ہونا چاہئے تب جا کر اقتدار ان کے گھر کی لونڈی بن سکتی ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے ہاں کے سیاستدانوں کی غالب اکثریت ان خاصیتوں میں ایک دوسرے پر قبت لے جاتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔
اس وقت جو ڈرٹی گیم ملکی سیاست میں چل رہا ہے وہ بھی بلیک میلنگ اور جوڑتوڑ کے گرد ہی گھوم رہا ہے، کھیل کھیلنے والے ان کارڈوں کو استعمال کرتے ہوئے بیک وقت ملک کے دو بڑے اداروں کو براہ راست یا پھر بالواسطہ طور پر بلیک میل ہی کررہے ہیں اور ان سے اقتدار میں اپنا حصہ مانگ رہے ہیں، ملک کی وہ سیاست سے جس سے پاکستانی عوام اپنی امیدیں باندھے ہوئے ہیں کہ وہ ان کے مسائل حل کریں گے، مہنگائی کا خاتمہ ہو گا، روزگار کے دروازے کھل جائیں گے، ملک میں خوشحالی آجائے گی، نیا پاکستان بنے گا، ہر کسی کو انصاف ملے گا، جرائم دہشت گردی کا خاتمہ ہوگا، وہ سیاستدان خود اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے کس طرح کے ہتھکنڈوں کا استعمال کرتے ہیں۔ عوام کو اس طرح کے سیاستدانوں کا بائیکاٹ کرنا چاہئے جو اپنے ذاتی مفاد کے لئے ملکی اداروں کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اسی میں پاکستان کی سلامتی مضمر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں