نہ جھکا، نہ ڈرا، نہ بکا، کون؟ 152

دیکھتا جا ، شرماتا جا۔۔۔ مگر کیا؟

سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ پاکستان آزاد ہے یا اس کے ادارے؟ اور کیا ادارے پاکستان کے تابع ہیں یا حکمرانوں کے؟ اور کیا ادارے ملکی عوام کو جواب دہ ہے بھی کہ نہیں؟ یہ عجیب سی بھول بھلیاں ہیں، آئین پاکستان میں تو واضح طور پر درج ہے کہ اداروں کے مجموعے کا نام ہی پاکستان ہے، دوسرے معنوں میں ادارے ریاست پاکستان کے تابع ہے لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں، ہر کوئی کھلی آنکھوں سے ملکی اداروں کی کارکردگی ان کا کردار دیکھتا ہے کہ وہ کیا کررہے ہیں۔ یہ ملکی ادارے پاکستان سے زیادہ کسی اور کے تابع بھی ہیں اور وفادار و مخلص بھی۔۔۔
اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان کے ادارے اور سیاستدان ایک دوسرے کے سہولت کار ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ دونوں ہی مل کر اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ملکی عوام کا استحصال کرتے رہتے ہیں۔ ملکی ادارے ایک طرح سے نوکرشاہی بن کر بلاشرکت غیرے ملک پر حکمرانی کرتے رہتے ہیں اور یہ اپنے منظور نظر سیاستدانوں کے سہولت کار کا کردار ادا کرکے ان کے حکمرانی کی راہیں ہموار کرتے رہتے ہیں اور 75 برسوں کے بعد اب جا کر ملکی عوام پر یہ راز فاش ہوا کہ ملکی ادارے بھی دراصل ایسٹ انڈیا کمپنی کی باقیات ہیں اور یہ ہی ایک طرح سے ان کا تسلسل برقرار رکھے ہوئے ہیں اور ان کے شکنجے سے آزادی پائے بغیر نہ تو ملک آگے بڑھ سکتا ہے اور نہ ہی ملکی عوام خوش حال ہو سکتے ہیں۔ ملکی عوام کے اس بدلاﺅ نے ملکی اداروں کے لئے پریشانی پیدا کرلی ہے اور اب وہ اپنے سہولتکار سیاستدانوں کے ساتھ مل کر ایک طرح سے اپنی بقاءکی جنگ لڑ رہے ہیں اور اپنی حاکمیت کے لئے خطرہ بننے والے پاکستانی عوام کے بدلاﺅ کے اس سوچ کو لوگوں کے اذہان سے کھرچ کر باہر نکالنے کے لئے کوششیں کررہے ہیں، وہ ملکی عوام کے ذہنوں سے آزادی کا خیال ہی باہر نکالنے کے لئے منصوبے بنا رہے ہیں اور انہیں دوبارہ سے پَر کٹے پرندے کی طرح سے زندگی گزارنے پر تیار کررہے ہیں اور جن حادثاتی سیاستدانوں نے بقول ان کے یہ شرارت یا فتنہ چھوڑا ہے یا پھر کھڑا کیا ہے وہ پہلے ان کا کام تمام کرکے انہیں نشان عبرت بنانے کی خونی اور خوفناک پلاننگ کررہے ہیں۔ اس مقصد کے لئے انہیں خون خرابہ یا لسانی فسادات بھی کروانا پڑے تو وہ اس سے بھی گریز نہیں کریں گے۔
اس مقصد کے لئے کراچی اور اندرون سندھ لسانی فسادات اور ایک دہشت گرد تنظیم کو دوبارہ سے انٹری دینے اور خیبرپختونخواہ میں طالبان کو جگہ دینے کی سازش تیار کرلی گئی ہے جس کی ابتداءیا شروعات گورنر کے پی کے اور وزیر اعلیٰ کے علاوہ تین منسٹروں سے بھتہ وصول کرنا ہے۔ اس خوفناک اور خونی سازش کے نتیجے میں اداروں کے بقول فتنہ خان کا کام بھی تمام کردیا جائے گا جس کا مطالبہ ان بڑی قوتوں نے بھی کیا ہے جو اس فتنہ خان کو اپنے لئے سب سے بڑا خطرہ خیال کرتے ہیں لیکن پھر وہی بات زمینی حقائق ان تمام تر سازشوں اور چالوں کے برعکس ہے۔ پاکستانی عوام اس وقت ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہو چکی ہے، انہیں سب کی حقیقت معلوم ہو چکی ہے، ادارے ان کے آگے بے معنی ہو چکے، وہ بے توقیر ہوچکے ہیں ان کی کسی بات پر ان کے کسی بھی فیصلے کو وہ درست نہیں بلکہ انتقامی کارروائی خیال کرتے ہیں بلکہ اس طرح کے فیصلے ان کے دلوں میں ان کے لیڈر کی محبت پیار اور ان کے سچا ہونے میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ ملک کی مین اسٹریم میڈیا اور ان کے دانشوروں کے تجزیے کو وہ ان کی ناکام خواہشات کا نام دے کر رد کررہے ہیں۔ غرض ملکی عوام پہلی بار خواب غفلت سے بیدار ہو چکی ہے جس کی وجہ سے ہی ملکی ادارے اور ان کے سہولت کار سیاستدان پہلی بار اپنی بقاءکی جنگ لڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ پہلے انہیں یہ جنگ لڑنے کی نوبت ہی نہیں آیا کرتی تھی وہ تو دور بیٹھ کر صرف تماشہ دیکھ کر محظوظ ہوا کرتے تھے اور اب وہ اپنی ہی لگائی ہوئی آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آرہے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں