نہ جھکا، نہ ڈرا، نہ بکا، کون؟ 272

سیاست اور اقتدار کی ہم جولی!

بالاخر پی ڈی ایم کا شیرازہ بکھر گیا اور مولانا کی ہانڈی چوراہے پر پھوٹ پڑی، اس سارے دنگا فساد میں نقصان ہی مولانا کو ہوا اور بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ ہو گیا کہ مصداق مولانا اس سارے دنگامستی میں دیوانے ہی نظر آئے۔ دونوں بڑی پارٹیوں نے ہی مولانا کی اوقات کو دیکھتے ہوئے بے وقوف بنایا۔ مولانا کا چورن کسی نے بھی نہیں خریدا یعنی کوئی ایک بھی اسمبلی کی سیٹ چھوڑنے کو تیار نہیں جب کہ مولانا کی روز اوّل سے ہی یہ خواہش تھی کہ ”نہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے“ کہ مصداق جب وہ خود اس اسمبلی کا حصہ نہیں تو پھر اس اسمبلی کو رہنے اور چلنے کا بھی کوئی حق نہیں جب کہ حکمران پارٹی مولانا کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے اکثر یہ جملہ کہتے رہتے ہیں کہ یہ پاکستان کی واحد اسمبلی ہے جو ڈیزل کے بغیر چل رہی ہے جب کہ رہی سہی کسر خود مولانا کے اتحادیوں نے انہیں بے وقوف بنا کر نکال لی اور مولانا کا یہ خواب کہ ”یہ اسمبلی نہیں چلنی چاہئے“ وہ کسی طرح سے بھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا اور مولانا کو سوائے شرمندگی اور ندامت کے کچھ ہاتھ نہیں آیا البتہ ان کا دوسرا کاروبار افرادی قوت برائے معاوضہ بدستور چل رہا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ سوا ارب روپے انہیں لانگ مارچ کے لئے دیئے تھے جو مارچ کے ملتوی ہونے کے باوجود واپس نہیں کئے گئے بلکہ اس افرادی قوت میں سے کچھ تبرک مریم نواز کے نیب میں پیشی کے موقع پر استعمال کی تھی تاکہ وصول کی جانے والی پیمنٹ کو حلال کردیا جائے اور کوئی واپسی کا مطالبہ نہ کرے اسی طرح سے سعودی عرب کی جانب سے عمران خان کی حکومت کو گرانے کے لئے دی جانے والی فنڈنگ اس کے علاوہ ہے۔
ذکر پی ڈی ایم کے بکھرنے کا ہو رہا تھا تو وہ ہو چکا، دونوں بڑی جماعتوں نے ایک دوسرے کو ہاتھ دکھا دیا۔ دونوں اندرون خانہ سیکورٹی فورسز سے ڈیل کرنے کی کوشش کررہیت ھی جن میں سے ایک کامیاب اور دوسری ناکام ہو گئی جس کے بعد ہی دونوں نے اپنی اپنی توپوں کا رُخ ایک دوسرے کی جانب موڑ دیا ہے اور ایک دوسرے پر جملوں کی گولہ باری کررہے ہیں اور مولانا صاحب دور بیٹھے کھلی آنکھوں سے صورت حال کو دیکھ رہے ہیں کہ کون کیا کررہا ہے۔۔۔؟ ہر کوئی اقتدار کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھ رہا ہے ہر کسی کے منہ میں پانی آرہا ہے کہ کب اقتدار کی لونڈیاں ان کے ہاتھ لگے گی اور کب وہ اپنی مرادیں پوری کرسکیں گیں۔ ریا کاری، منافقت اور فریب کا یہ سارا کھیل یہ سارا گورکھ دھندہ ہی اقتدار کے لئے کھیلا جا رہا ہے لیکن اس بار اقتدار کی دیوی ان سے کچھ اس طرح سے روٹھ چکی ہے کہ ان کے تمام کے تمام حربے ریاکاریاں اور مکر و فریب سب کے سب ناکام ہو گئے، خود ان کے طبلہ ساز ان کے لئے عوامی رائے عامہ بنانے کے تمام ہتھکنڈے استعمال کر چکے مگر افسوس کہ ان کا کوئی ایک بھی تیر نشانے پر نہیں لگ رہا۔ ایسے لگ رہا ہے کہ عمران خان کی پیرنی اور ان کے چیلے سب پر بھاری ہے۔ یہاں تک کہ خود اعلیٰ حضرت مولانا صاحب بھی ان کے آگے زیرو ہو گئے ہیں۔ عمران خان نے اپنی نصف سے زیادہ حکمرانی گزار لی اور اب باقی دور حکمرانی بھی وہ اسی طرح سے گزار لیں گے لیکن اس کے بعد بھی حکمرانی ان چلیدہ کارتوسوں کو ملے گا کہ نہیں۔۔۔ البتہ یہ ایک سوال ہے جس کا جواب کسی کے پاس بھی نہیں اس لئے کہ ملکی عوام انتخابی گورکھ دھندہ اور خاص طور سے لفظ جمہوریت سے ہی بیزار ہو چکی ہے جن کا کہنا ہے کہ اس جمہوریت نے ہی انہیں سوائے مہنگائی، گمراہی اور غلامی کے سوا دیا ہی کیا ہے۔ جمہوریت کا فائدہ سوائے سیاستدانوں کو کسی اور کو نہیں پہنچا۔ جمہوری راستے سے سیاستدان با آسانی اقتدار تک پہنچ جاتے ہیں اور عوام کو سوائے لالی پاپ اور مہنگائی و بے روزگاری کے اور کچھ بھی نہیں ملتا۔ یہ وہ تلخ حقیقت ہے جس سے عوام سے زیادہ خود سیاستدان اور میڈیا والے واقف ہیں مگر اس کا عوام ہی روتے ہیں اس لئے کہ وہ اس کرب سے عملی طور پر دوچار ہوتے ہیں جب کہ سیاستدان اور میڈیا والے اس کے ثمرات سے لطف اندوز ہورہے ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے اس المیہ پر اتنا شور نہیں مچایا جاتا جتنا کہ مچانا چاہئے اس لئے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں، اب معلوم نہیں جو سیاسی پارٹی سیکیورٹی فورسز سے ڈیل کر کے پی ڈی ایم کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک چکی وہ موجودہ حکومت سے کیا فائدہ اٹھانے جا رہی ہے۔ سیاست میں کیا تبدیلی آنے والی ہے جو بھی ہو ملک کے لئے بہتر ہوں اس میں پاکستان اور اس کے عوام کی فلاح ہو۔ حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ رمضان المبارک کے دوران مہنگائی کے جن کو پابند سلاسل کردیں تاکہ لوگوں کو رمضان المبارک میں مہنگائی کے ہاتھوں مذہبی تہوار منانے میں کوئی دشواری نہ ہو۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں