کہتے ہیں جب گیڈر کی موت آتی ہے تو وہ شہر کا رُخ کرتا ہے اسی طرح سے موم بتی بجھنے سے پہلے دھماکہ کرتی ہے۔ اسی طرح کی اور بہت سی کہاوتیں ان دنوں پاکستان کی بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال پر صادق آرہی ہیں۔ پڑھنے والے سمجھ گئے ہوں گے کہ میرا اشارہ کس جانب ہے۔ میں نام لکھنے کے بجائے اشارے کی بان میں ہی بات آگے بڑھانا چاہتا ہوں۔ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے جس سے لاتعداد دوسرے مسائل نے جنم لینا شروع کردیا ہے۔ اور موجودہ حکومت کا ایک نقاطی ایجنڈا ہی کرپشن کا خاتمہ ہے، موجودہ حکومت نے اپنے ابتدائی دنوں میں جس طرح سے کرپشن کے خلاف کام کیا ہے اس کی مثال پاکستان کی 71 برسا تاریخ میں ڈھونڈنے سے نہیں ملے گی اور یہ ہی اس حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ میرے ذاتی رائے یا خیال میں اگر عمران خان بڑے مگرمچھوں کا سر قلم کرنے میں کامیاب ہو گئے تو انہیں پاکستان کا طیب اردگان اور مہاتیر محمد بننے سے کوئی بھی نہیں روک سکے گا یہی وہ خوف اور پریشانی ہے جس نے روایتی سیاستدانوں کی راتوں کی نیندیں حرام کردی ہیں انہیں اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے عمران خان کی صورت میں ہلاکو خان اور ہٹلر نظر آرہے ہیں انہیں اپنی موروثی سیاست کی جانب بڑھنے والی اس موت کو روکنے کا کوئی طریقہ کوئی حربہ نظر نہیں آرہا۔ وہ اپنے طور پر ایک ایک کرکے سارے نشتر چلا چکے مگر وہ اسے اب تک روکنے میں ناکام ہیں انہیں تو اب تک یہ سمجھ نہیں آرہی کہ ان کے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔ اور کون کررہا ہے؟ وہ کبھی فوج کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں اور کبھی عدلیہ کو برا بھلا کہتے ہیں اور آخر میں تھک ہار کر عمران خان پر بھونکنا شروع کردیتے ہیں۔ وہ اس حقیقت کو کسی بھی طرح سے سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وہ قدرت کی گرفت میں آچکے ہیں۔وہ اس وقت قدرت کی پکڑ میں ہیں جس سے بچ کر نکلنا نہ صرف مشکل بلکہ نا ممکن ہے وہ ہر طرح سے بلیک میلنگ کررہے ہیں، لوگوں کو اکسانے کی کوشش کررہے ہیں۔ میڈیا کو حکومت وقت کے خلاف استعمال کررہے ہیں۔ اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی معاملات رکنے کے بجائے آگے بڑھ رہے ہیں اس لئے کہ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ ہو کیا رہا ہے۔ انہیں تو بس یہ ہی معلوم ہے کہ جس طرح سے وہ مخالفین کو بلیک میل کرنے کے لئے اس طرح کے حربے استعمال کرتے تھے شاید اسی طرح کا حربہ موجودہ حکومت بھی استعمال کررہی ہے۔ میرے خیال میں انہیں اب اس کیفیت سے باہر نکل کر حقیقت کا سامنا کرنا چاہئے۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ان کے حساب کتاب کا وقت آچکا ہے۔ ان سے وہی تو پوچھا جارہا ہے جو انہوں نے اپنے دور حکومت میں کیا تھا؟ ملکی عوام اچھی طرح سے جانتی ہے کہ پاکستان میں سیاست کس طرح سے کی جاتی ہے اور انتخابات میں ہار جیت کس طرح سے ہوتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی پارٹیاں فرنچائز بزنس بن گئی ہیں یہاں پارٹیاں، سینیٹرز اور پارلیمنٹ کی ٹکٹیں فروخت کرتی ہیں جس میں خریدنے کی سقت ہوتی ہے وہ انہیں خرید لیتے ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ ملکی سیاست اور اس کے نتیجے میں بننے والی پارلیمنٹ پوری طرح سے جرائم میں مکس ہوچکی ہے۔ اس طرح کی صورتحال میں عمران خان جیسے بے داغ شخص کا وزیر اعظم بن جانا معجزہ تو لگے گا۔ اسی لئے اقتدار کے بغیر تڑپنے والے ان سیاستدانوں کو غور کرنا چاہئے کہ یہ کس طرح سے ہوا۔ آخر نیب کا چیئرمین بھی تو ان ہی کے ہاتھوں کا لگایا ہوا ہے وہ کس طرح سے ان ہی کے خلاف برق رفتاری سے کام کررہا ہے۔ آخر کچھ تو ہے جو ان کی سمجھ میں نہیں آرہا۔
آخر وہ یہ کیوں نہیں تسلیم کررہے ہیں کہ ان کا اقتدار ختم ہو گیا ہے۔ ان کی سیاست ختم ہوگئی۔ ان کی بلیک میلنگ ختم ہو گئی۔ وہ کیوں نہیں مانتے کہ پاکستان بدل گیا ہے۔ پاکستان کی سیاست بدل گئی۔ پاکستان کے ادارے بدل گئے۔ اس میں کام کرنے والے افراد کی سوچ بدل گئی۔ سیاست سے خوف کا خاتمہ ہوگیا۔ سوشل میڈیا، اخبارات اور الیکٹرونکس میڈیا پر غلبہ پا گیا۔ ملکی ادارے سوشل میڈیا کی اطلاعات پر حرکت میں آگئے یہ سب تبدیلی نہیں تو اور کیا ہے؟
لہذا جو سیاستدان اب بھی گیڈر بھبکیوں سے کام چلانا چاہتے ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ چلیدہ کارتوسوں سے کبھی شکار نہیں ہوتا۔ حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ احتساب کے عمل کو مزید تیز کریں اور کسی کو بھی بھاگنے نہ دیں۔ قومی خزانہ لوٹنے والوں کا احتساب اسی بے رحمی کے ساتھ جاری رکھا جائے جس بے رحمی سے قومی خزانے کو لوٹا گیا تھا۔ ملکی عوام بھی ان لٹیرے نما سیاستدانوں کی حقیقت سے آگاہ ہوچکے ہیں اس لئے وہ بھی کسی میڈیائی پروپیگنڈے کی زد میں نہیں آرہے ہیں اور وہ بھی انہیں مقروض بنانے والے سیاستدانوں کا انجام دیکھنے کے لئے بے تاب ہیں۔
