ایک جوان عورت، دو بچوں کی ماں ، ایمبئشس ڈاکٹر تیرہ چودہ سالہ شادی شدہ زندگی کے بعد اپنے گلے میں پھندہ لگا کے کیسے مر سکتی ہے۔ اوپر والی ساری وجوہات ایک کامیاب زندگی کی بہترین علامات ہیں لیکن ان سب کامیابیوں کے باوجود کوئی لڑکی/عورت خودکشی کیسے کر سکتی ہے اور اگر کی بھی تو اتنی کامیاب زندگی کے بعد ایسا کیا تھا۔ اتنی پڑھی لکھی اور ویل سیٹلذ لڑکیاں بھی اپنے لئے سٹنیڈ نہیں لے پاتیں کیونکہ سب سے پہلے انھیں ان کے اپنے گھر والے ہی سپورٹ نہیں کرتے۔ کہ بچوں کا مستقبل خراب نہ کرو جیسے تیسے کر کے گزارا کرو۔ سب برداشت کرو۔ معاشرہ ایسی عورتوں کو تباہی کے وہ وہ روپ دکھاتا ہے کہ اپنی عزت، انا، خوشی، تکلیف ، دکھ اور اس جیسے بہت سے اور جذبات کو بالائے طاق رکھ کر وہ صرف اپنا گھر بسائے رکھتی ہیں ایسا گھر جو بس بھی نہیں رہا ہوتا
ماریہ سعید جس کے جسم پہ زخموں کے نشان تھے اور ایک ڈاکٹر کو کیا مصیبت پڑی ہے کہ وہ ہنکھے سے لٹکنے جیسا مشکل کام کرے ان کو تو بہت سی ادویات ہی پتہ ہوتی ہیں جن سے سکون سے موت آسکتی ہے دروازہ بھی کوئی ایسا لاکڈ نئیں تھا کہ شوہر نہ کھول سکا ہو بلکہ بھائی کو بلوا کے کھلوایا گیا ہو۔ کیسے وحشیوں ، درندوں سے بھرا ہوا معاشرہ ہے یہ ؟ کتنے آرام سے یہاں بھرے گھروں میں بہوئیں ، بیٹیاں پنکھوں سے لٹکا دی جاتی ہیں اور کسی کو بھی خدا، کا یا کسی انسان تک کا خوف نہیں آتا۔ ہمارا قانونی نظام اتنا مضبوط نہیں کہ لوگ سزاو¿ں سے ڈر سکیں۔
ہمارا معاشرتی نظام انسانی حقوق سے بالکل خالی ہے اسی لئے کسی کو کسی کا ڈر نہیں۔ جس فیملی سسٹم کو بچانے کیلئے ہماری عورتیں سولی تک پہ لٹک جاتی ہیں وہ فیملی سسٹم منافقت اور آپس کی ناچاتیوں سے کسی ایسی مسمار بلڈنگ کی طرح کھڑا ہے جس کی بنیادیں کھوکھلی، دیواریں کچی اور چھتیں اتنی بے امان ہیں کہ کسی بھی وقت سر پر گر جائیں گی
جہاں پہ دو لوگ ایک دوسرے کے ساتھ پورے خلوص اور سچائی سے رہ نہیں پاتے ، جہاں رشتے صرف معاشرتی، سماجی، معاشی اور خاندانی مجبوریوں کی بنیاد پر قائم ہوں وہاں پر کس قسم کی نسلیں پروان چڑھیں گی انتہائی کنفیزڈ۔ ٹوٹی پھوٹی، کھوکھلی، باہر سے بھلے خوش اندر سے دھاڑیں مارتی نسلیں اور افسوس ہم سب اس ہی نظام کا حصہ ہیں اور جانتے بھی ہیں۔ بدلنا چاہیں بھی تو بدل نہیں پاتے کہ یہ سب معاشرے میں ایسے پھیل چکا ہے جیسے خون میں سرطان۔ جسم کے چند حصے کٹ بھی جائیں تو یہ کسی اور جانب بہہ نکلے گا مگر جسم سے مکمل نکل نہیں سکتا۔۔
کیونکہ ہم مکمل طور سے اس سوچ، اس نظام ، ان فرسودہ روایات سے نکل ہی نہیں سکتے۔ سب اسی میں گلے سڑیں گے۔ گھریلو ناچاتیوں اور تشدد کی کئی مثالیں ہمیں پتہ ہوتی ہیں مگر ہمیں سب نارمل لگتا ہے جب تک سچ میں کوئی سانحہ ہونہ جائے ہمیں سب نارمل لگتا ہے۔
بیٹیوں کو گھر بسانے کی تلقین کے ساتھ یہ کانفیڈنس بھی دیں کہ اگر ان کی لاکھ کوششوں کے باوجود اگلا انسان انسان کا بچہ نہیں بن پارہا تو مرنے سے پہلے نکل آنا۔ تاکہ نہ صرف ان کی زندگیاں اور خوشیاں سلامت رہیں بلکہ گھر بسانے کے نتیجے میں جو معصوم دنیا میں آگئے ان کی مائیں بھی سلامت رہیں۔
اور ہمارے معاشرے کا ایک اور تکلیف دہ پہلو کہ جن لڑکیوں / عورتوں کو طلاق یا بیوگی جیسے مشکل اور شدید تکلیف دہ مراحل سے گزرناپڑتا ہے جہاں ان کا ذہنی، نفسیاتی، جذباتی اور جسمانی توان بگڑتا ہے تو اگلے مراحل ان کیلئے اور اذیت ناک کردئیے جاتے ہیں۔ ایک دوست بے بتایا کہ اسکے طلاق کے بعد اس کی اپنی امی اس سے سٹار پلس کی ساسوں سے بھی بدتر سلوک کرتی تھیں۔ بجائے ان کا درد سمجھا جاسکے انھیں پہلے کے طرح نارمل انسان سمجھاجائے اور نارمل زندگی کی طرف لایا جائے یا تو انھیں گھر بھر کی نوکرانی بنا دیا جاتا ہے جو اپنے گھر والوں کی خدمت کریں اور اپنے بچوں میں دل لگائیں۔ مطلب انھیں معاشرے کی بے بس ترین مخلوق بنادیا جاتا ہے اور کبھی فائینینشل مسائل کے ڈر سے کسی عمر سے اچھے خاصے بڑے ہر طرح کھڑکے ہوئے مرد کے پلے لٹرلی کسی گائے بکری کی طرح باندھ دیا جاتا ہے
اس مخلوق کو دوبارہ نارمل نہیں سمجھاجاتا۔افسوس۔۔۔۔ حالانکہ یہ اندر سے وہی لڑکیاں ہیں البیلی، سوہنی، بننے سنورنے کی بولنے کی گنگنانے کی شوقین۔ ایک مرد کے زندگی سے جانے سے ان کی زندگی کیوں اجیرن کردی جاتی ہے۔ کیا دوبارہ سے یہ کسی نارمل، خوش شکل، صحت مند مرد کے قابل نہیں رہتیں کیا؟
ایک لڑکی جو کہ اپنی چودہ سالہ شادی شدہ زندگی اورطلاق کے باوجود وہ ابھی تک خوش شکل ہے، عمر بھی نارمل ہے اور اس نے خود کو بہت فِٹ رکھا ہوا ہے، برسرِ روزگار ہے اچھی انکم ہے، گھر بھی ہے اپبا، گھر والے کہتے ہیں بس اب اسی میں دل لگالو ، تین بچوں کے بعد تمھیں اب دوسری شادی کی کیا ضرورت ہے۔ اسے دیکھ کے مجھے خیال آیا اسے تو ابھی بھی کوئی بہت پیارا لڑکا مل سکتا ہے، تو میرے جیسے باقی لوگ ، اس لڑکی کے اپنے گھر والے اس طرح کی سوچ سے کیوں مفلوج ہیں۔ بچوں کی اپنی مصروفیات ہوتی ہیں کیا اسے حق نہیں کہ اب وہ اپنے لیے کسی اچھے شخص کی خواہش کرسکے ، کیا مذہب اور قانون اسے یہ اجازت نہیں دیتا؟ یا پھر اسے پنکھے پر لٹکنے سے انکار کرکے اس معاشرے کی بے حسی کے جمودکو توڑنے کی سزا ملنی چاہئے۔ اسے چاہئے اب دیواروں سے دل لگالے پھر انہی دیواروں پر بننے والے ہیولے دیکھ کر جب وہ چیخنا چلانا شروع کرے گی تو ہم اسے کسی پیر کے تعویذ گھول گھول کے پلائیں گے۔ آخر کو یہاں کی جھوٹی اقدار ، منافقت کو چیلنج کرنے والے پاگل ہی قرار پاتے ہیں۔ اور کھوکھلی دیواروں کو سر پہ اٹھائے یہ پرفیکٹ لوگ جانے کب ڈھے جائیں۔۔۔
282