امریکہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے کارنامے 187

قبل از وقت انتخابات۔۔۔!

اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سیاست جمہوریت اور صحافت کسی بھی طرح سے زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتی۔ پوری کی پوری سیاست ہی روپ اور بہروپ کے گرد گھومتی ہے۔ سیاستدانوں کے پاس سیاست کے میدان ایک سے زائد ہیں، کسی ایک میدان کی کامیابی، کامیابی نہیں تصور کی جاتی اور نہ ہی کسی ایک میدان کی کامیابی اقتدار تک پہنچنے کا وسیلہ بنتی ہے، یہ وہ زمینی حقائق ہیں جس کا علم ہر کسی کو ہے مگر اس پر کچھ کہنا کچھ لکھنا تبصرہ کرنا سختی کے ساتھ منع ہے اس طرح کی بے پر کی باتوں پر مشتمل تمہید باندھنے کی ضرورت یا نوبت اس لئے پیش آرہی ہے کہ ملک میں قبل از الیکشن کروانے کی فضاءبنتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے قریبی رفقاءکا یہ کہنا ہے کہ خان صاحب اس سے قطع تعلق کے ان کی تحریک انصاف نے نئے الیکشن کی تیاریاں مکمل کی ہیں یا نہیں اور ان کی پارٹی اس میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں لیکن وہ قبل از وقت الیکشن کروانے کے لئے سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں۔ واقف کار دوستوں کا خیال ہے کہ یہ بھی پیرنی کی علمیات کا ہی تحفہ معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح سے کرکے شاید خان صاحب کو ایک بار پھر ملک میں حکمرانی کا موقع مل جائے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ خان صاحب کو 2018ءکے الیکشن میں اتنی واضح کامیابی نہیں مل سکی تھی کہ وہ حکومت سازی کرسکتے، لیکن میں بالائی سطور میں لکھ چکا ہوں کہ جس طرح سے عشق کے میدان بھی بہت سارے ہوتے ہیں بالکل اسی طرح سے پاکستان میں سیاست کے بھی بہت سارے میدان ہیں۔ اس وجہ سے خان صاحب کو بعض دوسرے سیاسی میدانوں سے بھی کامیابی مل گئی تھی جس کی وجہ سے ان کی حکومت سازی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکا تھا اور ان میدانوں سے ملک کی دوسری سیاسی جماعتوں کا فتح پانا اس وقت ممکن نہیں۔۔۔
کیوں اس کے بارے میں عوام الناس سے زیادہ خود وہ پارٹیاں اور ان کے ہم نواز میڈیا ہاﺅسز، سب کچھ جاننے کے باوجود وہ تجاہل عارفانہ سے کام لینے میں ہی انی عافیت خیال کرتے ہیں۔ اب خان صاحب کے قبل از وقت الیکشن کروانے کا ایک تو سیدھا سادا سا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے خان صاحب کی مقبولیت کا گراف تیزی سے نیچے لا دیا ہے۔ دوسرا پنجاب حکومت نے خود خان صاحب کے وژن کو جتنا نقصان پہنچایا ہے اتنا نقصان تو اپوزیشن پارٹیوں نے بھی نہیں پہنچایا ہو گا لیکن بدقسمتی سے خان صاحب کو اس حقیقت کا نہ تو فہم ہے اور نہ ہی ادراک ہے۔ وہ بزدار کی سادگی اور ان کے آبائی علاقے کے تاریکی کو ہی دلیل بنا کر ابتداءسے لے کر اب تک ان کی وکالت اور حمایت کرکے ان کے تمام کرپشن اور دوسرے گناہوں کو ڈھانپنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن معاملہ اتنا سیدھا سادا نہیں کہ وہ اس طرح کے کمزور دلیلوں سے اس کا دفاع کیا جا سکے۔
کہتے ہیں تاڑنے والے قیامت کی نگاہ رکھتے ہیں، اس وجہ سے انہیں ان ساری حقیقتوں کا علم ہے جو یا تو خان صاحب کے علم میں نہیں یا پھر وہ بھی انجان بننے کا ڈرامہ کرتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست اور جمہوریت دنیا کی ایک اس طرح کی انوکھی سیاست و جمہوریت ہے کہ اس میں اخلاقی قدروں کا شائبہ تک نہیں صرف اختلاف رائے کو ہی جمہوریت کا حسن نہیں کہا جاتا ہے بلکہ کل کے بدترین دشمن کو آج کا جگری یار کہہ کر اسے بھی جمہوریت کا کرشمہ قرار دیا جاتا ہے۔ جھوٹ، چالاکی، مکاری، عیاری، دغا بازی اور وعدے خلافیاں جمہوریت اور سیاست کی بہترین صلاحیتوں اور خوبیوں میں سے ایک ہے جس سیاستدان میں یہ خوبیاں جتنی زیادہ ہوتی ہیں وہ پاکستانی معاشرے کا اتنا ہی زیادہ کامیاب سیاستدان تصور کیا جاتا ہے اور اسی طرح کے کامیاب ترین سیاستدان بدقسمتی سے پاکستان پر حکمرانی بھی ایک بار نہیں بلکہ بار بار کرچکے ہیں یہ پاکستانی جمہوریت کا ہی ایک کرشمہ یا پھر معجزہ ہے کہ جن لوگوں کو قید خانے میں کال کوٹھری میں ہونا چاہئے تھا وہی لوگ ملک پر حکمرانی کرنے لگ جاتے ہیں۔ وہی قانون شکن جنہیں قانون اور انصاف کو سزاوار ڈیکلیئر کرنا چاہئے تھا۔ وہی جمہوریت کی میزبانی سے قانون ساز اسمبلی میں پہنچ جاتے ہیں یعنی عملی طور پر قانون شکن ہی قانون سازی کے لئے اہل قرار دیئے جاتے ہیں اسے جمہوریت کی جوالامکھی نہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ وہ جب بیٹھتی ہے تو اس کے اندر سے کس کس طرح کے قانون شکن نکلتے ہیں اور جب قانون شکن ہی قانون ساز اسمبلی میں ہوں گے تو پھر وہ کس طرح کی قانون سازی کریں گے اس کا اندازہ ہر کوئی با آسانی لگا سکتا ہے۔
وطن عزیز کو کس طرح سے ناقابل تلافی نقصان اس طرح کی جمہوریت سے پہنچا اس کے بعد بھی ملک میں الیکشن کروائے جاتے ہیں، وہی پرانے جمہوری انداز سے وہی قانون شکن دوبارہ سے دستور ساز اسمبلی میں آتے ہیں۔ کس طرح کا سنگین مذاق پاکستان کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ عمران خان قبل از وقت الیکشن سے سرکاری مشینری کو ہتھیار بنا کر الیکشن کو ہائی جیک کرنے والی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی ان کوششوں کو ناکام بنانے کی کوشش کررہے ہیں مگر وہ بھی پرانے کھلاڑی ہیں، دیکھتے ہیں اس کا کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں