امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی 234

لمبے ہاتھوں اور گہری جیبوں والے

شاید آپ کے علم میں ہو کہ دو دن پہلے برطانوی اور عالمی میڈیامیں ایک خبر آئی تھی جسے پاکستا ن میں صرف چند انگریزی جریدوں نے نشر کیا تھا۔ پاکستان کے اردو میڈیا نے اس پر زیادہ توجہہ نہیں دی تھی۔ ایسا شاید پاکستانیوں کو ہر اہم خبر سے بے خبر رکھنے کے لیئے کیا جاتا ہے۔ خبر یہ تھی کہ برطانیہ کی پولیس نے پاکستانی نڑاد ، گوہر خان کو ، ہالینڈ میں مقیم ایک معروف پاکستانی عمل پرست ، وقاص گورایہ ، کو قتل کرنے کی سازش میں گرفتار کیا تھا۔ ان کے ساتھ اس سازش میں دیگر ’نامعلوم ‘ افراد کا بھی ذکر تھا۔ ’نامعلوم ‘ افراد کا ذکر سن کر شاید آپ کے کان کھڑے ہوں۔
وقاص گورایہ کا نام اب سے چند سال پہلے اس وقت منظرِ عام پر آیا تھا جب انہیں اور ان کے ساتھ پانچ یا چھ اور عمل پرستوں کو ’نا معلوم ‘ افراد نے اغوا کیا تھا ، جنہیں بعد میں رہا کر دیا گیا تھا۔ جن میں سے اکثر اب ملک سے باہر در بدر ہیں۔ ان عمل پرستوں میں سے چند نے علانیہ یا علامتی طور پر اغوا کرنے والوں کا تعلق پاکستان کے بعض حساس اداروں سے بتایا تھا۔ ایسی چیزوں کا واضح تعلق کبھی بھی ثابت نہیں ہوسکتا۔ یہی نا معلوم افراد کی کامیابی ہوتی ہے۔
جہاں تک وقاص گورایہ کا تعلق ہے وہ آزار کنندگان کے خاص نشانہ پر رہے ہیں۔ بعضوں کا کہنا ہے کہ شاید اپنے طرزِ بیان کی وجہہ سے زیادہ نشانہ بنائے گئے ہیں۔ حساس ادار ے ویسے ہی حساس ہوتے ہیں، انہیں کوئی بھی سخت یا نرم بیان راس نہیں آتا۔ کہا جاتا ہے کہ نہ صرف وقاص گورایہ بلکہ ان کے اہلِ خاندان اور اقارب کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ اس میں ان کی اہلیہ کے ساتھ بھی، لچر طور پر، ذہنی زیادتی بھی کی گئی اور ان کے والدین کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ اسی ظلم کے نتیجہ میں وہ دوسروں کی طرح ترکِ وطن کرنے پر مجبور ہوئے۔
یہاں یہ واضح کرنا ضرور ی ہے کہ دنیا کے اکثر ممالک اور بالخصوص غیر جمہوری ممالک میں آمرانہ ذہنیت رکھنے والے اپنی کھینچی ہوئی لکیر سے انحراف کرنے والوں ، یا اپنے آمر اور جابر رویوںکی مزاحمت کرنے والوں کو ایک لمحہ بھی برداشت نہیں کرتے۔ انہیں عبرت کا نشان بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔۔ ایسا صرف پاکستان میں نہیں ہوتا۔
کینیڈا میں گزشتہ کئی سال سے آزادی ءاظہار کے عمل پرستوں کے حقوق کے لیئے کام کرتے ہوئے ہمیں بیسیوں ممالک کے لوگوں کے ساتھ ملنے کا موقع ملا۔ ایک وقت ہمارے ادارے کی فائل میں، پانچ سال کے عرصہ میں بیس ممالک سے تعلق رکھنے والے ساٹھ سے زیادہ عمل پرستوں کے کوائف تھے۔ ان میں البانیہ سے زمبیا تک کے لکھنے والے شامل تھے۔ ان میں چینی ، سر ی لنکن، پاکستانی۔ افغانی ، ایرانی، یمنی، اور خوو کینیڈا ،اورر امریکہ کے لوگ بھی شامل تھے۔
ان کو آزا ر دینے والوں میں ایک خصوصیت مشترک تھی۔ ان سب کے ہاتھ لمبے اور جیبیں گہری تھیں۔ دنیا کا کوئی بھی کونہ ان کی رسائی سے باہر نہیں تھا۔ ان کو خرچ کی کوئی کمی نہیں تھی۔ اس رقم سے وہ عمل پرستوں اور ان کے اقارب کو خریدنے کی کوشش بھی کرتے تھے۔ یا اس رقم سے اپنے کام دوسروں کو ٹھیکے پر دے دیتے تھے۔ ان کاموں میں عمل پرستوں کو خریدنا، ان کے خلاف غیر اخلاقی افواہیں پھیلا نا، ان کا اغوا کرنا، اور ان پر بیرونی ممالک ہی میں تشدد کرنا ، یا ان کو قتل تک کر دینا شامل تھا۔ یہ کوئی نشان چھوڑنے کے عادی نہیں تھے۔ کلیم عاجز کا شعر کہ، ’ دامن پہ کوئی چھین نہ خنجر پہ کوئی داغ۔۔ تم قتل کرو ہو یا کرامات کرو ہو‘،انہی پرصادق آتاہے۔
ہو سکتا ہے کہ آپ کو یہ باتیں ، افسانہ لگیں یا کسی جاسوسی فلم کا کوئی پلاٹ۔ سو ہم آپ کی توجہ حال ہی میں آئر لینڈکی ایک ہوائی کمپنی کے جہاز کو بیلاروس میں زبر دستی اتارنے کی طرف دلاتے ہیں۔ یہ حالیہ تاریخ کا عجیب واقع ہے، اس جہاز میں بیلاروس کے ایک مزاحمت کار(جو بلاگ لکھتے تھے) اور ان کی دوست کو، جہاز کو اتارنے کے بعد کھلے بندوں گرفتار کیا گیا۔ اس پر روس کے جاسوسی ادارے اور ان کے حلیفوں پر الزام لگے۔ شاید آپ کو ترکی کے سعودی سفارت خانے میں واشنگٹن پوسٹ کے سعودی صحافی ، عدنان خاشوگجی ، کا قتل یاد ہو۔ ان کی لاش کے ٹکڑے کرکے غائب کر دیئے گئے۔ جب اس پر دنیا میں شور مچا تو کچھ سعودی اہلکاروں کو سزاﺅں کے اعلان ہوئے، لیکن اس پر عمل ہوا یا نہیں یہ ایک راز ہی ہے۔ اسی طرح کینیڈا میں بعض افغانی اور پاکستانی نڑاد عمل پرستوں کو بھی موت کی دھمکیا ں ملیں۔ لیکن پولس میں شکایتوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
ہمیں وقاص گورایہ کے قتل کی سازش کے باب میں دو اور پاکستانی عمل پرست بھی یاد آتے ہیں۔ یہ بلوچ عمل پرست ساجد حسین، اور کریمہ بلوچ ہیں۔ ساجد حسین کی لاش سوئڈن کے ایک دریا میں ملی تھی۔ اور کریمہ بلوچ کی لاش کینیڈا کے شہر ٹورونٹو کی ایک جھیل میں۔ ان دونوں کی موت کی کوئی مناسب تفتیش نہیں ہوئی۔ اور فائلیں داخلِ دفتر ہو گئیں۔ جب بھی کچھ نامعلوم افراد پر شبہات اٹھے تھے۔ اور اب تو برطانیہ کی پولس نے ایک پاکستانی نڑاد شخص کے ساتھ بھی چند نامعلوم افراد کو شامل کر دیا ہے۔ دو جمع دو آپ خود کر لیں۔
آخر میں بس اتنا یاد رکھیں کہ لمبے ہاتھوں اور گہری جیبو ں والے نامعلوم افراد کے تعلقات سرحدوں کی حدود سے پرے اپنے ہی جیسوں کے ساتھ گہرے ہوتے ہیں۔ اور وہ بوقتِ ضرورت ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ حکومتوں کے سیاسی، جمہوری ، یا نظریاتی اختلاف کے باجود۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں