عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 138

مستقبل کا پاکستان؟

پاکستان کے مستقبل کے بارے میں کچھ بھی کہنا بہت ہی مشکل ہو گیا ہے، ویسے بھی غیب کا علم تو سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کسی کے پاس نہیں۔ بحیثیت مسلمان ہمارا اسی پر ایمان ہے لیکن موجودہ صورتحال سے پھر بھی کسی حد تک مستقبل کے بارے میں لنگڑی لولی پیشن گوئی تو کی جا سکتی ہے، اسی لنگڑی لولی اور نامکمل پیشن گوئی کے مطابق اسلام کے نام پر اور روحانیت کی بنیاد پر معرض وجود میں لائے جانے والے اس ملک کا مستقبل کوئی زیادہ روشن نہیں ہے اگر یہ کہا جائے کہ اس بدقسمت ملک کا کوئی مستقبل ہی باقی نہیں بچا تو غلط نہیں ہوگا۔ میں نے اسے بدقسمت کیوں کہا؟ اس لئے کہ اس کی تباہی و بربادی اور مستقبل سے محرومی کے ذمہ دار غیروں اور دشمنوں سے زیادہ اپنے ہی ہیں یعنی بقول شاعر کے
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو پاکستان کی تباہی و بربادی میں برابر کے ذمہ دار ہیں اس میں پاکستان پر بار بار حکمرانی کرنے والے سیاستدان اور دوسرے عناصر کے علاوہ ملک کے دانشور اور صحافی بھی شامل ہیں۔ یقین جانیے کہ عمران خان کوجیل میں ڈالنا کسی قانونی عمل کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ ایسا کرنے کا حکم پاکستان پر حکمرانی والوں کو دیا گیا تھا اس کے لئے ان مقدمات کے اندراج کا ڈرامہ رچایا گیا۔ پاکستان کی پولیس اور عدالتوں سمیت سارے کے سارے سرکاری ادارے کنٹرولڈ ہیں۔ میڈیا بھی ان میں شامل ہیں، سب کو ہی معلوم ہے کہ اس وقت کون سے اسکرپٹ پر عمل کیا جارہا ہے، اگر کسی کو اس حقیقت کا علم نہیں تو وہ پاکستان کی مظلوم اندھی بہری اور گونگی عوام ہے۔ جسے ہر کوئی دھوکہ دے کر اندھیرے میں رکھ رہا ہے اس وقت پاکستان کی ساری کی ساری ایلیٹ کلاس میر جعفر اور میر صادق بن چکی ہے اور سب اجتماعی طور پر پاکستان کی خودمختاری کا سودا کررہے ہیں۔ پاکستان سے اس کی آزادی چھین رہے ہیں۔ جس کے حصول کے لئے لاکھں لوگوں نے اپنی جانوں کی قربانی دی تھی اور پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے والے ساز و سامان بھی کیک کی طرح سے پلیٹ میں رکھ کر دیا جارہ اہے۔ بالکل اسی طرح سے جیسے کسی مجبور عورت کو اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لئے اپنی عزت کی نیلامی کرنا پڑتی ہے۔ اس کے عزت کی نیلامی یا پھر اس کا یہ سودا کروانے والے معاشرے میں جن القابات سے پکارے جاتے ہیں، وہی کام وہ اب بدنصیب پاکستان کے ساتھ کرنے جارہے ہیں تو انہیں بھی اسی طرح کے گرے ہوئے نام کے ساتھ میر جعفر اور میر صادق کے نام کے اضافے کے ساتھ تاریخ میں پکارا جائے گا۔
عمران خان کو راستے سے ہٹانا ان کی حکومت کا خاتمہ اب ایک کھلی کتاب ہے، یہ سارا ایک گیم کا حصہ ہے، یہ پاکستان کی سالمیت اور اس کی خودمختاری کے خلاف سازش تھی اور اس سازش کو خود اپنوں نے کامیاب کروایا۔ عمران خان کے خلاف مقدمات کا اندراج کرکے انہیں پابند سلاسل کرنا تو ایک بہانہ تھا، اصل نشانہ تو پاکستان اور اس کی خودمختاری تھا اور عمران خان اس وقت تک پابند سلاسل رہیں گے جب تک دشمنوں کا کام اپنے انجام کو نہیں پہنچ جاتا۔ اس کام میں پاکستان کی ساری کی ساری آزادانہ خارجہ پالیسی کا خاتمہ ہے۔ سی پیک کا خاتمہ کرنا ہے اور اپنے روایتی حریف کی سرپرستی کو قبول کرکے اس کے زیر تابع آنا ہے۔ ایک طرح سے اپنی آزادی سے دست بردار ہونا ہے۔ یہ وہ خوفناک اور خطرناک کھیل یا سازش ہے جس کی تکمیل کے لئے ہی عمران خان کی دوڑتی ہوئی حکومت کا خاتمہ کروا کر اس سازش میں شامل تمام کرداروں کو حکومت میں شامل کروانا ہے اور اس کے بعد عمران خان اور پی ٹی آئی کے خلاف جتنے مقدمات درج کئے گئے اور جس طرح کا کریک ڈاﺅن کیا گیا وہ سب سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ تھا۔ یہ انکشاف مغربی دانشور اور دفاعی مبصرین کے علاوہ صحافی اپنی رپورٹوں میں کررہے ہیں۔ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت تک اس وقت کنٹرول میں آچکی ہے، سب کے سب اپنے ہی ملک کے خلاف کی جانے والی سازش میں مبینہ طور پر بالواسطہ یا براہ راست ملوث بتائے جاتے ہیں اس لئے پاکستان کا مستقبل اب ایک سیاہ اور ڈراﺅنی رات کے اور کچھ بھی نہیں رہا ماسوائے ایک عوامی انقلاب کے اور کوئی بھی راستہ حل نہیں ملک کی جانب بڑھنے والی موت کا راستہ روکنے کا۔۔۔؟ کیونکہ عمران خان کے علاوہ ہر کسی نے اپنا سودا کرلیا ہے، اس ملک کا خیرخواہ اس میں بسنے والے عوام کے علاوہ کوئی نہیں، اب انہیں ہی آگے بڑھ کر کچھ کرنا چاہئے ورنہ اپنے آنے والی نسلوں کو غلامی کا تحفہ دینے کے لئے انہیں تیار رہنا چاہئے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں