ملک کو آئی ایم ایف کے حوالے کرنے سے متعلق ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے جب کہ بعض نے پاکستان کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی دوبارہ سے نو آبادی بنانے کی سازش کی بھی بات کی ہے، معاملہ کچھ تو ہے جس کی وجہ سے عمران خان اور ان کی حکومت پر اس طرح کے تابڑ توڑ حملے کئے جارہے ہیں، پہلے وزیرخزانہ حفیظ شیخ کی آئی ایم ایف کی ضد یا دباﺅ کے وجہ سے تقرری کی گئی، اس کے بعد اسٹیٹ بینک کے گورنر جیسے اہم ترین اور انتہائی نازک عہدہ بھی آئی ایم ایف کی جھولی میں ڈال دیا گیا۔ اس اہم ترین تبدیلی سے پاکستان کی خودمختاری اور اس کی سیکریسی پر ایک دو نہیں لاتعداد سوالات کھڑے ہوگئے ہیں جب تک ان سوالوں کے جوابات نہیں آئیں گے اس وقت تک یہ معاملات مزید مشکوک تر ہوتے جائیں گے، میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ عمران خان جیسے خوددار اور حب الوطن وزیراعظم کے ہاتھوں یہ کیسا کام ہوگیا؟
سابق گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ کا ٹرانسفر یا ان کی بے دخلی ناگزیر تھی لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں تھا کہ ان کو ہٹا کر اسٹیٹ بینک کی گورنری بطور تحفہ آئی ایم ایف کو دے دی جائے۔ مانا کہ پاکستان پر معاشی لحاظ سے بہت ہی کڑا وقت آیا ہوا ہے۔ لیکن اس کا یہ بھی تو مطلب نہیں کہ آپ اپنی خودمختاری کو ہی داﺅ پر لگا دیں۔ ایک طرف عمرانخان 4 مئی کو ٹیپو سلطان کے یوم شہادت کے موقع پر ٹوئیٹ کرتے ہیں کہ ”آج 4 مئی تیپو سلطان کا یوم شہادت ہے، ٹیپو سلطان وہ ہستی ہے جس نے غلامی کی زندگی پر آزادی کو ترجیح دی اور اس کے لئے لڑتے لڑتے اپنی جان قربان کردی۔ ٹیپو سلطان سے میری الفت کی بھی یہی وجہ ہے“۔
عمران خان کے اس ٹویٹ میں اور خود ان کے عمل میں تضاد صاف نظر آرہا ہے۔ وہ اس طرح سے کہ ٹیپو سلطان کی جنگ ہم تو اسی ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف تھی جو ان سے ان کی آزادی چھین رہی تھی اور عمران خان اسی ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرز کی آئی ایم ایف کے حوالے ملک کی معیشت کررہے ہیں اور پھر کس حیثیت سے آئی ایم ایف کا ملازم گورنر اسٹیٹ بینک صوبوں کے وزراءخزانہ کو احکامات دے سکے گا۔۔۔؟ کس طرح؟ اس سلسلے میں سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کا یہ بیان بھی توجہ طلب ہے کہ ”آئی ایم ایف کے حاضر سروس ملازم کو گورنر اسٹیٹ بینک بنانا شرمناک اقدام ہے اور حکومت کا یہ اقدام پاکستان کو عالمی مالیاتی سامراج کی نو آبادی بنانے کے مترادف ہے۔ اس طرح سے جس مالیاتی ادارے سے بیل آﺅٹ پیکیج لیا جارہا ہے اسی ادارے کے ملازم کو اسٹیٹ بینک کا گورنر بنانا مفادات کا ٹکراﺅ نہیں تو اور کیا ہے۔
رضا ربانی کا کہنا تھا کہ مالیاتی ادارے کے ملازم کی وفاداری پاکستان کے ساتھ نہیں ہوگی۔ مشیر خزانہ اور گورنر اسٹیٹ بینک آئی ایم ایف کے بندے ہیں۔ رضا ربانی نے کہا کہ یہ بات شرمناک ہے کہ صوبائی وزیر خزانہ کو آئی ایم ایف کے درمیانے درجے کے ملازم کے سامنے پیش کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ کبھی کسی پاکستانی حکومت نے یہ دعویٰ نہیں کیا تھا کہ آف شور تیل اور گیس کے ذخائر دریافت ہو سکتے ہیں اور لوٹنے والے پہلے ہی آگئے۔ آئی ایم ایف کے ہاتھوں فروخت کرکے پاکستان کی مالی خودمختاری اور قوم سلامتی پر سمجھوتہ کیا گیا ہے“۔ یہ بیان بھی حقیت کو کسی حد تک واضح کررہا ہے، میری تو سمجھ میں یہ نہیں آرہا ہے کہ قومی سلامتی سے تعلق رکھنے والے دوسرے اداروں نے اس بڑی تبدیلی پر کیوں اعتراض نہیں کیا؟ ان کا اعتراض نہ کرنا خود اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے ان کی رضا مندی یا پھر ان ہی کے مشورے پر یہ کڑوا گھونٹ پیا ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ ڈاکٹر باقر رضا کے گورنر اسٹیٹ بینک بننے سے ایک روز پہلے ان کی ملاقات وزیر اعظم سے ہوئی تھی جس میں انہوں نے وزیر اعظم کو اپنی بہترین خدمات اور پاکستان کو اس معاشی بحران سے نکالنے کا وعدہ کیا۔ بہرحال یہ بات اتنی سادہ سی نہیں ہے کہ اس پر اتنی خاموشی کے ساتھ صبر کرلیا جائے اور اسے نظر انداز کرلیا جائے۔ اس تبدیلی کے ثمرات آنے والے بجٹ اور بینکوں کے موجودہ پالیسیوں میں تبدیلی کی صورت میں سامنے آجائیں گے کہ پاکستان کے بینکوں کی سود کی شرح کیا طے پاتی ہے۔ کسانوں اور تاجر برادری کو کس شرح سود پر قرضہ فراہم کیا جاتا ہے۔ بہرحال جس طرح کی یہ تبدیلیاں کی گئی ہیں اور جن کی مداخلت اور منشاءسے یہ یہ تبدیلیاں ہوئی ہیں یہ جمہوری روایات کے سراسر خلاف ہے اس طرح کی تبدیلیاں نو آبادی والے نظام کے ہی طور طریقے ہیں۔ ماضی میں بھی اسی طرح سے ایک غیر ملکی بینک کے افسر شوکت عزیز کو وائس رائے کی طرح سے پاکستان کا وزیر اعظم بنایا گیا تھا اس کے بعد جس طرح سے انہوں نے ملکی ادارے اونے پونے داموں فروخت کرنے کی کوشش کی وہ بھی سب کے سامنے ہے سب کو معلوم تھا کہ پاکستان کے آئین سے حلف لینے والے کی وفاداری کس کے ساتھ تھی؟ اس لئے اس موجودہ سیٹ اپ یعنی وزیر خزانہ اور گورنر اسٹیٹ بینک سے وفا کی امید رکھنا دیوانے کے خواب سے زیادہ نہیں ہوگا۔ عمران خان کو چاہئے کہ وہ معاشیات کے ماہرین سے مشاورت کرکے اس طرح کے فیصلے کریں اور اگر اس طرح کے فیصلے ان کے اپنے نہیں تو پھر اپنے کاندھے دوسروں کے استعمال میں لانے سے بہتر ہے کہ دوسری راہ لی جائے۔ اس لئے کہ پاکستانی عوام نے ان سے بھلائی اور ترقی کی اُمیدیں باندھی ہیں کسی اور سے نہیں۔ ٹیپو سلطان کا قول دہرانہ جتنا آسان ہے ویسا بننا اتنا ہی مشکل ہے۔ کاش کے تیرے دل میں اتر جائے میری بات۔
