عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 385

وضاحتوں کا کاروبار

ان دنوں راج نیتی کے کھیل میں وضاحتوں کے بیوپار نے اچھی خاصی ترقی کرلی ہے۔ کسی ایک آدھ وزارت سے اس بیوپار کو سنبھالنا اب ممکن نہیں رہا۔ اسی وجہ سے اس بیوپار کے لئے وزیروں کے ساتھ ساتھ مشیروں کے ایک بڑے فوج کی ضرورت ہر دور میں حکمرانوں کو پڑتی رہی ہے۔ اب یہ کاروبار اتنا نیا بھی نہیں رہا۔ زمانہ قدیم سے ہی اس کی ضرورت محسوس کی جاتی رہی ہے۔ دور جدید میں تو بعض میڈیا گروپس نے بھی رضا کارانہ طور پر یا مشروط ہو کر یہ خدمات فراہم کرنا شروع کر دی ہیں۔ اس طرح کا کھیل صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے راج نیتوں میں کھیلا جاتا ہے یہ ایک الگ بات ہے کہ وہاں اس کا تناسب نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے جس کا واضح طور پر یہ ہی مطلب ہو سکتا ہے کہ صفائی کی ضرورت وہیں پڑتی ہے جہاں گند زیادہ ہو۔ ورنہ صاف ستھرے علاقوں میں تو صفائی کی ضرورت کبھی کبھار ہی پڑتی ہے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں حکومت کے پاس عوام کو دینے کے لئے کچھ ہو یا نہ ہو مگر ان کے پاس اپنی وضاحتوں کا نہ ختم ہونے والا اسٹاک ہر وقت موجود رہتا ہے۔ کرونا کیا اس سے زیادہ خطرناک کوئی اور بیماری بھی آ جائے یا حکومت کی نا اہلی یا مجرمنہ غفلت و لاپرواہی سے لوگوں کے گھر برباد ہو جائیں۔ حکومت کے پاس اس کے لئے بھی وضاحتوں کا انبار موجود ہو گا۔ حکومت کی وضاحتیں فریادیوں کو اس طرح سے لاجواب کر دیتی ہیں کہ انہیں ایسے لگنا شروع ہو جاتا ہے کہ جیسے ان کے ساتھ کچھ ہوا ہی نہیں اور حکومت تو ان کی سب سے بڑی خیرخواہ ہے۔ حکومت صوبائی ہو یا وفاقی ہر کسی کو اپنی گندگی صاف کرنے کے لئے کسی نہ کسی خاکروب کی ضرورت پڑتی ہی رہتی ہے۔ سیاسی اصلطلاع میں اسے ”وضاحت“ کہتے ہیں۔ لفظوں کے اس ہیر پھیر یا دوسرے معنوں میں ”گورکھ دھندے“ کا نام ہی ”وضاحت“ ہے۔ ویسے کبھی یہ کام صرف وزارت اطلاعات سے چلایا جاتا تھا لیکن جیسے جیسے حکومتی سطح پر گندگی کی شرح میں اضافہ ہوتا گیا یوں یوں خاکروبوں کی تعداد اور ان کی قدر و منزلت میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ بیماری بڑھتی گئی اور مسیحا بھی بڑھنے لگے۔ عمران خان کی موجودہ حکومت سے جہاں ملکی عوام نے اور بہت ساری امیدیں باندھی تھی وہی ان میں سے ایک شفافیت بھی ہے یہ کہ عمران خان کی حکومت میں وہ سب کچھ نہیں ہو گا جو اس سے پہلے کے حکومتوں میں ہوتا رہا ہے۔ حکومت کو وضاحتوں سے نہیں بلکہ کام کرنے سے چلایا جائے گا۔ لیکن موجودہ حکومت میں بھی جب وضاحتوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا تو ملکی عوام میں بے چینی بڑھنا شروع ہو گئی کہ یہ کیا پرانا راگ دوبارہ سے الاپنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے؟ آخر عمران خان کی حکومت نے ایسا کیا غلط کیا ہے؟ جس کی وجہ سے انہیں بھی وضاحت کی ضرورت پیش آرہی ہے؟ لوگ ان وجوہات کو اور ان خامیوں کو تلاش کررہے ہیں جو عمران خان کے ناک کے نیچے ہورہے ہیں۔ میں عمران خان اور ان کے وژن کا غیر مشروط حامی ہوں اس لئے کہ وہ اپنے ذات کے بجائے ملک کے بارے میں سوچتا بھی ہے اور کرتا بھی ہے۔ لیکن ان کے سوچ اور ان کے کرنے کے عمل کے دوران آخر ایسی کون سی شے حائل ہو گئی ہے جو وضاحت کا باعث بن رہی ہے۔ لوگوں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ حکومت جتنی انرجی وضاحتوں پر خرچ کررہی ہے اس کی آدھی انرجی بھی لوگوں کے مسائل حل کرنے پر خرچ کرے تو پھر حکومت کو وضاحت کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔ دراصل وضاحتوں کے ذریعے حکومت اپنے چہرے پر پڑے دھول کو صاف کرنے کی کوشش کرتی ہے مگر حکومت یہ نہیں سوچتی کہ چہرے کو صاف کرنے سے دھول اٹنے کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا ان دنوں کرونا وائرس کے ذریعے آئے مالی اور تجارتی بحران کی وجہ سے حکومت نے مستحقین کو مالی امداد دینے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ اس ریلیف پروگرام کو شفاف بنانے کی کوشش کررہی ہے جب کہ مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ امددا ان ہی مستحق لوگوں کے جیبوں میں جارہی ہے جو پہلے ہی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مستفیض ہو رہے تھے اور سندھ میں وفاقی حکومت نے جو پچھلے چار ماہ سے یہ سلسلہ بند کیا ہوا تھا اسی جمع شدہ رقم میں دوچار ہزار روپے مزید شامل کرکے وہ 12 ہزار روپے کی رقم مستحقین میں تقسیم کررہی ہے۔ وفاقی حکومت کے اس پروگرام سے اب بھی وہی لوگ مستفیض ہو رہے ہیں جو پہلے سے ہوتے آرہے ہیں یعنی اس بہتی گنگا میں وہی ہاتھ دھل رہے ہیں جو پہلے سے گندے ہیں۔ صاف ستھرے اور نئے مصیبت کے مارے اس نعمت سے محروم ہیں اور اس طرح سے یہ سرکاری ریلیف بھی ریاستی سیاست کا شکار ہو کر رہ گئی جب کہ اس طرح کا ہونا ایک متوقع بدلتے ہوئے پاکستان میں اور بھی شرم کی بات ہے۔ کرونا پر سیاست بھی ہو رہی ہے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش بھی کی جارہی ہے اور اس مخالفت میں صوبے وفاق پر سبقت لے جانے کی کوشش کررہے ہیں۔ بیان بازیوں اور وضاحتوں کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے اس طرح سے لگ رہا ہے کہ کرونا وائرس سے زیادہ خطرناک سیاستدانوں کو ایک دوسرے سے ہونے لگا ہے۔ دنیا بھر میں سیاستدان کرونا کے شکل میں آئے اس مصیبت سے نمٹنے کے لئے ایک پیج پر ہو گئے ہیں لیکن ہمارے ہاں ابھی تک جوتیوں میں دالوں کے بجائے سرکاری ریلیف بٹ رہا ہے۔ عمران خان اور اس کی حکومت کو اس کا نوٹس لینا چاہئے کہ ان کے ناک کے نیچے بیٹھے لوگ کیا کررہے ہیں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے رکن اسمبلی بننے والے کراچی کے ایم این اے نے خود اپنی پارٹی کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے اپنی نشست سے استعفیٰ دے دیا۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ عمران خان کو ٹھنڈے دل و دماغ سے یہ سوچنا چاہئے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ پارٹی کے بانی ارکان ایک ایک کرکے ساتھ چھوڑ رہے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ فصلی بٹیرے ان کی جگہ لے رہے ہیں اور وہ اپنے لٹ مار کی پالیسی کی وجہ سے پارٹی کو بھی ہائی جیک کررہے ہیں۔ آج کابینہ میں پی ٹی آئی کے اپنے ارکان کی تعداد کم اور فصلی بٹیروں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اس طرح کی صورت حال سے ہی تو وضاحتوں کی ضرورت پیش آرہی ہے۔ وزیر اعظم تک اصل صورتحال کو پہنچنے ہی نہیں دیا جارہا ہے اور حقائق منظرعام پر آنے کے بعد وزیر اعظم کو وضاحت کی گولی کھلائی جارہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو چاہئے کہ وہ صورتحال کا خود ادراک کرے اور یہ معلوم کرے کہ آخر ہو کیا رہا ہے؟ ان کے احکامات پر کس حد تک عمل ہو رہا ہے؟ اور ان کو دی جانے والی رپورٹ میں کہاں تک صداقت ہوتی ہے؟ وزیر اعظم کو اس کی انکوائری کرنی چاہئے کہ 12 ہزار روپے فی کس کی امداد کن لوگوں کو مل رہی ہے؟ آیا وہ اس کے مستحق ہیں بھی کہ نہیں؟؟ اس لئے کہ ملک کے سفید پوش اس تبرک سے تاحال محروم ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں