گزشتہ ہفتہ ٹورونٹو کا مشہورِ زمانہ عالمی فلمی میلہ اختتام کو پہنچا۔ سالہاسال سے چلنے والے اس میلے کا یہ چالیسواں سال تھا۔ یہ کوئی گیار ہ روز جاری رہا۔ یہ فلمی میلہ دنیا بھر میں فلم سازی، فلم بینی، فلمی تعلیم و تدریس، اور بین الاقوامی ثقافتی تبادلوں کا ایک نہایت اہم سلسلہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فرانس میں ہونے والے کانز کے فلمی میلے کے ساتھ اب ٹورونٹو کا یہ میلہ بین الاقوامی فلمی صنعت کا ایک بنیادی ستون ہے۔
یہ میلہ انگریزی میں Toronto International Film Festival یاTIFFکے نام سے زباں زدِ خاص و عام ہے۔ اس بار اس میلے میں دنیا بھر سے اسی ممالک سے وابستہ فلم سازوں، ہدایت کاروں، اور فلمی ستاروں نے شرکت کی۔ میلے میں گیارہ دن میں تین سو سے زیادہ فلمیں پیش کی گئیں جو مختلف سنیماﺅں یا تھیٹروں میں دکھائی گیئں۔ بعض اندازوں کے مطابق، اس میں ٹورونٹو، کینیڈا، اور دنیا بھر کے پانچ لاکھ سے زیادہ باذوق شایئقین شرکت کرتے ہیں۔
اس میلے کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس میں کئی بہت بڑی فلموں کا افتتاحی اجرا بھی ہوتا ہے۔ ایسے اجرا کے موقع پر ان فلموں سے متعلق مشہور فلمی ستارے اور ہدایت کار شرکت کرتے ہیں۔ جن کی صرف ایک جھلک دیکھنے کے لیئے ان کے مداح گھنٹوں قطار بنا کر انتظار کرتے ہیں۔ اس میلے کے دوراں مرکزی ٹورونٹو کی کئی سڑکوں پر ٹریفک کئی دنوں تک محدود کر دیا جاتاہے، تاکہ شایئقین میلہ گاہوں کے اطراف سکون سے پیدل گھوم سکیں۔
یہاں یہ جاننا بھی دلچسپ ہے کہ اس میلے میں شامل ہونے والی فلمیں ناظریں کے ووٹوں کی توقع کرتی ہیں۔ اور کئی بار یہ اعزاز حاصل کرنے والے اداکار، ہدایت کار، کہانی نویس، کیمرہ ٹکنیشن وغیرہ اس کے بعد کئی بڑے عالمی اعزاز بھی جیت لیتے ہیں۔ جن میں اکیڈیمی، گولڈن گلوب، اور ایسے دیگر ایوارڈ شامل ہوتے ہیں۔ اس کی ایک اہم مثال ہندوستانی فلم Slumdog Millionaire ہے۔
اس بار اس میلے میں شامل ہونے والے بڑے ملکوں مثلاً امریکہ ، برطانیہ ، فرانس، لاطینی امریکہ یا دیگر مغربی ممالک کے علاوہ ، وہ ممالک بھی شامل تھے جن میں جنوبی ایشیائی، پاکستانی، اور مسلم فلمی شایقین کو دلچسپی ضرور ہوگی۔ ان میں چند نام یہ ہیں: الجزائر، بنگلہ دیش، مصر، بھارت، ایران، سوڈان، قزاقستان، نیپال، پاکستان (صرف ایک فلم)، سعودی عرب، قطر، فلسطین، شام، ترکی، ازبیکستان، وغیرہ اہم ہیں۔ ان کا ذکر اس لیئے ضروری ہے کہ ان کے موضوعات اور کہانیاں خود پاکستان کی ثقافت کی کہانیاں بھی کہی جاسکتی ہیں۔
ان ممالک میں شامل فلموں میں بھارتی ہدایت کار سنالی بھوش کی فلم، Sky Pink ایسی فلم تھی کی جس کو دیکھ کر بہتوں نے اپنے دوپٹے ، اسکارف، اور دامن ، اشکوں سے بھگو لیئے۔ اس فلم میں مشہور ادا کارہ پریانکا چوپڑہ کے ساتھ کشمیر ی نڑاد فلمی اداکارہ زائرہ وسیم بھی شامل تھیں۔ زائرہ وسیم اس سے پہلے مشہور ہندی فلموں ، دنگل، اور سیکرٹ س±پر اسٹار میں شہرت حاصل کرنے کے ساتھ اہم فلمی اعزاز بھی حاصل کر سکی تھیں۔ زائرہ وسیم نے اس میلے میں پیش کی جانے والی فلم ، بننے کے بعد اداکاری ترک کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ اور اس کی وجہہ انہوں نے مذہبی بتائی تھی۔ ان کی عمر صرف انیس سال ہے۔
امریکہ سے تعلق رکھنی والی پاکستانی ہدایت کار منہال مبارک نے اس میلے میں ’ہالا‘ کے عنوان سے ایک اردو ، انگریزی فلم پیش کی۔ اس فلم میں مغرب میں آباد ہونے والے تارکین ِ وطن کی دوسری نسل کو درپیش ثقافتی مسائل کا ذکر ہے۔ اب سے پہلے اس میلے میں اعزاز یافتہ ہدایت کار شرمین?عبید چنوئے بھی اپنی ایک دستاویز ی فلم کے ساتھ شرکت کر چکی ہیں۔ اس کے علاوہ ایک پاکستانی فلم ’دختر ‘ بھی اس میلے میں افتتاحیہ طور پر دکھائی گئی تھی۔ بعد میں یہ کینیڈ ا کے سینیماﺅں میں بھی دکھائی گئی۔
سوڈانی ہدایت کار امجد ابو اعلی کی فلم You will die at 20 نے بہت پزیرائی حاصل کی۔ اس میں ان توہمات کا ذکر ہے جس کا شکار اکثر ممالک کے عوام ہوتے ہیں۔ اس کی نمائش میں ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ اس کو دیکھنے والے سینکڑوں شائقین سوڈانی عوامی انقلاب کے حق میں نعرے لگاتے رہے، سوڈان بھی پاکستان کی طرح بیسیوں سالوں سے فوجی آمریت اور مذہبی شدت پسندی کا شکار رہا ہے۔ یہ فلم اور اس کے ہدایت کار اور سوڈانی عوام کا آمریت مخالف جذبہ ہر محکوم کو ہمت دلاتا ہے۔
اس میلے میں پاکستان کی نمائندگی کے تحت ایک مختصر فلم Darling بھی پیش کی گئی۔ جس کے ہدایت کار صائم صادق ہیں۔ یہ پاکستان میںTransgender ، یا خواجہ سراﺅں کی صنف سے تعلق رکھنے والوں کی جدو جہد کی کہانی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں خواجہ سراﺅں کو شہری حقوق صرف دس سال قبل دیئے گئے ہیں۔
ہمیں یقین ہے کہ اس تحریر کے ذریعہ آپ کو دنیا کے ایک اہم فلمی میلے کے بارے میں کچھ پتہ چلا ہوگا۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ کینیڈا اور خود ٹورونٹو اور گردو نواح میں رہنے والے پاکستانی ایسی سار ی ثقافتی سرگرمیوں سے بے اعتنائی برتتے رہے ہیں۔ اور ان میلوں کے دوراں پاکستانی شکلیں خال خال ہی نظر آتی ہیں۔ اس کی وجہہ یہ ہے کہ ہم تارکِ وطن ہو کر بھی نئے ملک کی ثقافت کو اپنانے سے گریز کرتے ہیں۔ حالانکہ اس ثقافت میں خود ہماری ثقافت بھی شامل ہے۔ یہاں پاکستانی فلمیں بھی کم آتی ہیں کیونکہ خود پاکستان میں سرکاری طور پر فلمی صنعت کی پذیرائی نہیں ہوتی۔ کاش یہ صورتِ حال بدلے۔ انسان جہاں بھی رہیں ان کے جذبے اور ان کا درد ایک ہی تو ہے۔
