عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 243

پاکستان خودمختاری کی جانب گامزن!

امریکی صدر کا پاکستان کو کال نہ آنے کو پاکستان کے لئے مشکل گھڑی کا ڈول ان دنوں پاکستان کی ایک وہ بڑی سیاسی جماعت پوری شدت کے ساتھ پیٹ رہی ہے جسے بدقسمتی کے ساتھ اس مملکت خداداد پر دوبار وفاقی سطح پر اور چار بار پنجاب کی سطح پر حکمرانی کا اعزاز حاصل ہے جن کا کسی بھی حکومت کے اچھے یا پھر مستحکم ہونے کا معیار ہی امریکہ بہادر سے اچھے تعلقات ہیں یعنی اگر کسی حکومت کے امریکہ سے تعلقات کسی بھی وجہ سے بہتر نہیں تو ان کے نزدیک وہ حکومت نہ صرف غیر مستحکم ہے بلکہ غیر معیاری اور کمزور ترین لنگڑی لولی حکومت ہے جو کسی بھی وقت گر سکتیہے ان کے اس طرح کے خیالات اور سوچ سے ان کی غیر سیاسی اور غیر عوامی ہونے کا پتہ چلتا ہے۔
امریکہ خدانخواستہ کوئی مسلمانوں کا قبلہ اوّل تو نہیں کہ ان سے تعلقات ہر حال میں ہی اچھے ہونے چاہئیں، ہر ملک کو اپنی آزادانہ پالیسی بنانے اور رکھنے کا پورا پورا حق حاصل ہے اور کسی بھی بڑے ملک کو اخلاقی لحاظ سے قانونی یا جمہوری طور پر یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی دوسرے ملک پر اپنا کوئی فیصلہ مسلط کرے اور اپنا ہر جائز و ناجائز حکم ماننے پر مجبور کرے۔ عمران خان کی حکومت کا یہ ہی اصولی موقف امریکہ بہادر کے ساتھ بھی ہے اور امریکہ بہادر کو کسی چھوٹے ملک سے اس انداز میں بات کرنے یا پھر اپنے تعلقات استوار کرنے یا آگے بڑھانے کی عادت نہیں۔ اس وجہ سے امریکہ کے موجودہ صدر جوبائیڈن کو پاکستان سے اس حالت میں بات کرتے ہوئے غیر معمولی دشواری مشکل اور خاص طور سے ندامت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ ویت نام کے بعد دوسری بار انہیں افغانستان کے محاذ پر ایک تاریخ ساز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ کیونکہ افغانستان کے محاذ پر ان کے ٹرلین ڈالرز کی انویسٹمنٹ ضائع ہو گئی اور ان کی فوجی طاقت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا جس کی وجہ سے امریکہ کا صدمے میں یا پھر قومے میں آنا ایک فطری امر ہے۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ وہ اپنی اس ناکامی اور غلط ترین پالیسی کا ذمہ دار کسی اور کو ٹھہرا رہے ہیں اپنی ناکامی کا ملبہ بھی وہ کسی اور پر گرانے کی کوشش کررہے ہیں جس کا زندہ ثبوت امریکی حکومت کی پراسرار خاموشی ہے اور اس خاموشی کو پاکستان کی اپوزیشن ہوا دینے کی کوشش کررہی ہے۔
افغانستان کی تبدیلی یہ افغانستان کا اندرونی معاملہ ہے اور پاکستان اس سارے معاملے میں ایک بہترین ہمسائے کا کردار ادا کررہا ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن جو کہ ایک پاکستانی سیاسی پارٹی ہے، انہیں اپنے بیان بازیوں میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کا خیال رکھنا چاہئے، اپنی آواز کو ملک دشمنوں کی آواز میں شامل نہیں کرنا چاہئے اور نہ ہی ملک دشمنوں کے بیانیے کو تقویت دینے کی غلطی کرنی چاہئے جو بدقسمتی سے ان کے قائدین کا پرانا وطیرہ رہا ہے۔ افغانستان کی یہ سیاسی تبدیلی یقیناً امریکہ اور بھارت سمیت بعض دوسرے ملکوں سے ہضم نہیں ہو رہی ہے کیونکہ وہ تو افغانستان کو پاکستان اور بعض دوسرے ممالک کے خلاف گولہ بارود کے طور پر استعمال کرنے کے خواہش مند تھے لیکن وہی ملک اب اس نئے بدلتے ہوئے افغانستان کے قریب سے قریب تر ہو گئے ہیں کی وجہ سے ان ملکوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھنا تو بنتا ہے جو افغانستان کے ذریعے پاکستان، چین اور روس کو ایک طرح سے نکیل ڈالنے کی کوشش کررہے تھے اور اب افغانستان میں طالبان کی حکومت کے آنے اور وہاں پوری طرح سے امن قائم ہونے اور وہاں کی فضاﺅں سے بارود کی جگہ پھولوں کی مہک آنا تو ان شرارتی اور بڑے ملکوں کو کسی بھیطرح سے راس نہیں آئے گا اس وجہ سے وہ اب پہلے سے زیادہ پریشان ہو گئے ہیں اور ان کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ ان کا بنا بنایا یہ کھیل کس طرح سے بگڑ گیا۔ ایک بہت بڑا فوجی مورچہ ان کے ہاتھ سے لے گیا ایک اس طرح کا مورچہ جس پر خود بھارت نے بھی اربوں کی انویسٹمنٹ کی تھی اس کے ہاتھ بھی سوائے رسوائی کے اور کچھ نہیں آیا ان کی بھی تخریب کاری اور دہشت گردی کی ساری کی ساری فیکٹریاں ہی جو افغانستان کی سرزمین پر چل رہی تھیں وہ سب کی سب بند ہوگئی۔
”را“ کے سارے کے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے اس کے بعد سابق وزیر اعظم خاقان عباسی کا یہ کہنا تو بنتا ہے کہ امریکی صدر نے اب تک پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کو کال کیوں نہیں کیا؟ سب کچھ جاننے کے باوجود وہ انجان بنے ہوئے ہیں، انہیں تو عمران خان کو داد دینی چاہئے لیکن وہ ایک سیاستدان ہیں وہ بھی ایک اس طرح کی پارٹی کے کہ جن کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ بیان بازیاں اس طرح سے کی جائیں کہ جس سے دوستوں کو تکلیف نہ پہنچ اور نہ ہی ان کے منصوبے متاثر ہوں بلکہ بیان بازی ان کے بیانیوں کو مدنظر رکھ کر کی جائے، میرے ذاتی خیال میں امریکی صدر جوبائیڈن کا پاکستان کو کال نہ کرنا جہاں ان کی بوکھلاہٹ اور شرمندگی کو ظاہر کرتا ہے وہیں ان کا رویہ پاکستان کی خودمختاری کی راہ پر گامزن ہونے کا ایک ناقابل تردید ثبوت ہے کہ پاکستان کو اب اپنی خارجہ پالیسی کے لئے کسی سپرپاور کی ڈکٹیشن کی ضرورت نہیں اور اس کے لئے ہم سب پاکستانیوں اور عالم اسلام کو عمران خان کی وژن کو داد دینا چاہئے جنہوں نے اپنی بصارت اور دانشمندی سے پاکستان کو عالمی سطح پر اس نہج پر پہنچا دیا کہ وہ اب اپنے اہم ترین فیصلے خود کر سکتا ہے اسی وجہ سے افغانستان کی نئی حکومت کو تسلیم کرنے کے سلسلے میں پاکستان کا اسپورٹس میں بائیکاٹ کرکے اس کو بلیک میل کیا جا رہا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں